تو اس کاجواب یہ ہے کہ یہ آیت سے ثابت ہی نہیں ہوتا کہ یہ منافقین آپ کے پاس توبہ واستغفار کے لئے آئے اور آپ نے ان کی درخواست پر ان کے لئے مغفرت کی دعا کی ہو۔آیت میں تو لفظ ’’لَوْ‘‘یعنی ’’اگر‘‘استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آتے اور استغفار وتوبہ کرتے اور اگر آپ سے استغفار کی دعاکے لئے درخواست کرتے اور آپ دعا فرمادیتے تو بے شک اﷲسے معافی پاتے۔
ٓ رضی اللہ عنہ اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ رسول ا ﷲکی مجلس میں آئے اور استغفار کیا؟کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے مغفرت کی دعا کی؟ان سوالوں کا جواب اس آیت سے نہیں ملتا۔تو محض قیاس وتخیل پر ایک عقیدہ کی بنیاد رکھ دی گئی۔
ان حقائق کے علاوہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس آیت سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ منافقین اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آکر اﷲسے استغفار کرتے اور آنحضرت سلی اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے تو اﷲضرور انہیں بخش دیتا اوران پر رحم کرتا ‘بلکہ جو بھی ایسا کرتا اس کے لئے تو بہ ورحمت کا دروازہ کھلا ملتا۔
لیکن یہ سب کب ممکن ہوتا ‘ظاہر ہے کہ یہ سب آپ کی زندگی میں ہوتا۔کیونکہ آپ کی مجلس میں حاضری ‘آپ کا دعا فرمانا ‘یہ سب زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔لیکن اب تو آپ وفات پاچکے ہیں ‘اب نہ آپ کی مجلس موجود
|