Maktaba Wahhabi

221 - 325
کہ بحق السائلین کہنے والا خود بھی سائل ہوتا ہے ‘اس لئے وہ اپنے حق سوال کے وسیلہ سے دعا کرتا ہے جس کا اﷲنے حکم فرمایا ہے اور وعدہ بھی۔لیکن جو شخص ’’بحق فلان ‘‘کہتا ہے تو سائل کو ’’فلاں ‘‘کے حق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔دوسرے لفظوں میں وہ یوں کہتا ہے کہ ’’اے اﷲ!چوں کہ تیرا فلاں بندہ صالح ہے اس لئے میری دعا قبول فرما۔‘‘تو کسی اور کی صالحیت اور حق سے سائل کوکیا تعلق؟بلکہ یہ تو ایک طرح سے دعا میں زبردستی کرنی ہے ‘حالانکہ دعا میں تو عاجزی اور مسکنت کی تاکید کی گئی ہے۔ارشاد ہے: اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَّرُّعًا وَّ خُفْیَۃً اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ(الاعراف:۵۵) ’’اپنے رب سے دعا مانگو عاجزی سے اور چپکے چپکے ‘وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘ نیز اس قسم کی دعائیں نہ تو نبی صلی اﷲعلیہ وسلم سے منقول ہیں نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نہ تابعین اورنہ ہی ائمہ ومجتہدین میں سے کسی سے منقول ہیں۔اور دعا افضل ترین عبادت ہے اور عبادات کی بنیاد سنّت اور اتباع پر ہے نہ کہ ھوی اور بدعت پر۔ لیکن اس حدیث کی صحت فرض کرنے اور سوال وجواب کی اس لمبی بحث کو چھیڑنے کی ضرورت ہی کیا‘جب اﷲنے ہمیں اس سے بچالیا تو خوامخواہ ہم اس میں کیوں پھنسیں۔جب علمائے حدیث نے اس کے موضوع اور غیر صحیح ہونے پر اتفاق کرلیا ہے تو اس حدیث سے استدلال کرنا ہی غلط اور فضول ہے۔
Flag Counter