اگر آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کے جاہ کا مطلب کوئی شخص یہ لیتا ہے کہ آپ اپنی امت کی شفاعت فرمائیں گے تو یہ بالکل حق اور درست ہے۔لیکن اس میں کسی امتی کوئی دخل نہیں۔شفاعت صرف آپ کا حق ہے اور وہ بھی محض اس کے لئے جس کے لئے اﷲخاص اجازت دے ‘اور وہ بھی اس دنیا میں نہیں بلکہ وہ مخصوص ہے قیامت کے دن کے لئے۔لہٰذا اس سے یہ کسی طرح ثابت نہیں ہوتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے حق کا سہارا لے کر کوئی شخص آپ کے جاہ ومرتبہ کا وسیلہ لینے لگے۔
اس پوری بحث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اس حدیث کا کوئی لفظ قول رسول نہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بالکل بری ہیں۔یہ قرآن وتعلیم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کے خلاف ہے۔یہ آپ پر سراسر کذب وافتراء ہے۔یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ جس چیز سے آپ منع فرمائیں اسی کی امت کو تعلیم دیں۔
اس کے علاوہ یہ ایک ایسی بے سرپیر کی حدیث ہے جس کا نہ کتب حدیث میں کہیں پتہ ہے نہ نشان۔علامہ ابن تیمیہ اس حدیث سے اپنی لاعلمی کا اظہار فرماتے ہیں کہ یہ حدیث بے نشان وبے لگام ہے جس کی نہ سند صحیح نہ متن۔
جولوگ اس بے اصل اور موضوع حدیث کو صحیح مانتے ہیں وہ ہماری اس جرح کو پڑھ کر چراغ پا ہوجائیں گے اور شدت جذبات سے مغلوب ہوکر ہم کو توہین رسول کا مجرم گردانیں گے۔ہم ایسے حضرا ت پر اچھی طرح واضح کردینا چاہتے
|