Maktaba Wahhabi

262 - 325
لینے کی ضرورت ہی نہ پڑتی اور نہ حضرت عمر رضی اﷲعنہ یہ فرماتے کہ ’’اے اﷲتیرے نبی کی زندگی میں تیرے نبی کی دعا کا وسیلہ لیتے تھے اور اب تیرے نبی کے چچا کی دعا کا وسیلہ لیتے ہیں۔اور نہ ہی یہ فرماتے ’’اُدْعُ یَا عَبَّاسُ‘‘(اے عباس ‘آپ دعا فرمائیے)بلکہ براہ راست فرماتے کہ اے اﷲتیرے نبی کی ذات کے وسیلہ سے تجھ سے بارش طلب کرتے ہیں(معاذ اﷲ)لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ یا کسی اور صحابی سے اس قسم کی کوئی دعا مذکور نہیں۔ لہٰذا اس حدیث سے مخلوقات کی ذات کو وسیلہ بنانے کا ثبوت پیش کرنا بالکل غلط اور حقیقت کے خلاف ہے۔بلکہ یہ حدیث تو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مومن کی دعا اس کے بھائی کے لئے مشروع وسیلہ ہے۔ ذرا مسلمانوں کے تعامل پر بھی نظر ڈالئے۔لوگ جب استسقاء کے لئے نکلتے ہیں تو شہر کے سب سے صالح شخص کو نماز ودعا کے لئے آگے بڑھاتے ہیں۔اس وقت سب ہی یہ سمجھتے ہیں کہ اس مرد صالح کی دعاکی برکت سے اﷲہماری فریاد سنے گا ‘جیسا کہ عہد نبوی سے ہوتا آیا ہے۔کسی کے ذہن میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ وہ مرد صالح کی دعا کے بجائے ان کی ذات کووسیلہ بنارہے ہیں۔اگر ان کی ذات مقصود ہوتی تو کسی کولانے اور سامنے کرنے کی ضرورت نہ تھی ‘بلکہ ہر شخص اپنی دعا میں یہ کہہ دیتا کہ اے اﷲفلاں کی ذات کے وسیلے سے ہمیں بارش عطافرما۔کسی کو بلانے ‘اس کی ا قتداء میں نماز پڑھنے اور اس کی دعا پر آمین کہنے کی ضرورت کیا تھی؟حالانکہ جمہور مسلمانوں کا عمل اس کے خلاف ہے ‘ لہٰذا تعامل اہل اسلام سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ استسقاء کی اس حدیث کو
Flag Counter