Maktaba Wahhabi

267 - 325
اور بجائے رحمت کے یہ عذاب ہی کا باعث بنی۔ لیکن .... حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میں مذکور تمام باتیں محض موضوع او رمن گھڑت ہیں او ران کی نہ کوئی بنیاد ہے نہ اصل،بلکہ اوہام و قیاسات کے سوا کچھ نہیں۔یہ حال تو متن کا تھا۔اب ذرا اس کی سند میں بھی نظر ڈالی لی جائے۔ اس حدیث کی سند پر بحث:شیخ دحلان نے اپنی کتاب ’’الدررا السنیۃ فی رد علی الوھابیۃ‘‘میں اس حدیث کواس ثبوت میں نقل کیاہے کہ مخلوقات کی ذات اور خصوصاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا وسیلہ جائز ہے۔ شیخ دحلان کاجواب علامہ بشیر سہسوانی رحمۃ اﷲعلیہ نے ’’صیانۃ الانسان عن وسوسۃ الشیخ دحلان ‘‘خوب خوب دیا ہے۔علامہ مرحوم نے فرمایا کہ مذکورہ حدیث مسند دارمی کی ہے اور دارمی کی حدیثوں کو صحیح کہنا صحیح نہیں۔اس بارے میں علامہ ابن حجر رحمۃ اﷲکا بیان ہے کہ کسی معتمد شخص نے مسند دارمی کی حدیثوں کو صحیح نہیں کہا ہے تو اس کی صحت کے بارے میں کسی غیر معتمد شخص کابیان کیسے معتبر مانا جاسکتا ہے۔ ۲۔ علامہ عراقی رحمۃ اللّٰہ علیہ کابیان کہ مسند دارمی میں مرسل معضل ‘منقطع ‘مقطوع حدیثیں بہت ہیں۔ ۳۔ اس حدیث کی سند میں ایک راوی محمد بن فضل سدوسی ابوالنعمان البصری ہے جس کے بارے میں حافظ ابن حجر نے ’’تقریب‘‘میں کہا ہے کہ اس کا لقب عارم تھا
Flag Counter