Maktaba Wahhabi

270 - 325
وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَلَمُوْآ اَنْفُسَھُمْ جَآئُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُوْا اللّٰہ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُ وْا اللّٰہ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(النساء:۶۴) ’’اور یہ لوگ جب اپنے حق میں ظلم کربیٹھتے تھے ‘اگر تمہارے پاس آتے اور اﷲسے بخشش مانگتے اور اﷲکا رسول بھی ان کے لئے بخشش طلب کرتے تو اﷲکو معاف کرنے والا مہربان پاتے۔‘‘ اور میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور آپ کے پاس آیا ہوں کہ آپ میرے لئے مغفرت طلب فرمائیں قبر سے آواز آئی ’’اﷲنے تم کو بخش دیا۔‘‘ اس حدیث کا غیر یقینی ہونا توخود اس کے متن سے ظاہر ہے ‘سند کی بحث تو چھوڑئیے اور اس میں بعض ایسی باتیں ہیں جن کی وجہ سے اس حدیث کے موضوع ہونے میں کسی مسلمان کو بھی شک نہ ہوگا مثلاً: (۱) یہ تو سب کو معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وفات کے بعد حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا کے حجرے میں دفن کئے گئے ‘اور جیسا کہ اس حدیث میں مذکور ہے کہ وہ دیہاتی آیا اور اس نے قبر پر وہ مذکورہ حرکتیں کیں تو سوچئے کہ اس نے حجرہ میں داخلہ کی اجازت کب لی؟اجازت کا ذکر تو اس حدیث میں ہے نہیں۔اگر فرض کرلیجئے کہ اس نے اجازت لے لی تب بھی عقل یہ تسلیم نہیں کرتی کہ حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا کی موجودگی میں وہ قبر پر گرپڑتا اور قبر کی مٹی سر پر پھینکتا اور حضرت سیّدہ اسے نہ روکتیں۔ (۲) یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔آپ نے ایک دیہاتی کا قصہ بیان فرمایا۔معلوم نہیں خود دیکھا یا کسی سے سن کر بیان کیا۔اگر کسی سے سن کر بیان کیا تو
Flag Counter