Maktaba Wahhabi

336 - 492
لیے تم میں سب سے زیادہ بہتر ہوں۔"[1] 4۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: "تم عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو،بلاشبہ تم نے انہیں اللہ تعالیٰ کی امان سے حاصل کیا ہے اور ان کی شرمگاہوں کو اللہ تعالیٰ کے کلمے سے حلال کیا ہے۔ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتے ہو وہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو۔اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں مار کی سزا دو جو زخمی نہ کرے اور شدید تکلیف دہ نہ ہو اور ان کاتم پر یہ حق ہے کہ تم انہیں اچھے اور احسن انداز س نان ونفقہ اور رہائش دو۔"[2] اور حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان"جسے تم نا پسند کرتے ہو وہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو"کا معنی یہ ہے کہ وہ انہیں گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیں جنھیں تم اپنے گھر میں داخل کرنا اور بٹھانا ناپسند نہیں کرتے خواہ وہ اجنبی مرد ہو یا کوئی عورت یا خاوند کے رشتہ دار سب اس ممانعت میں شامل ہیں۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر بیوی خاوند کی نافرمانی کرتی ہے تو اسے شدید مار نہیں البتہ ہلکا سا مارا جاسکتا ہے۔یہ اجازت بھی اسی طرح ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں فرمایا ہے کہ: ﴿وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا﴾ "جن عورتوں کی نافرمانی اور بددماغی کا تمھیں خوف ہوا نہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑدو اور انہیں مار کی سزا دو پھر اگر وہ تابعداری کریں تو ان پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو،بے شک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے۔"[3] تو جب عورت اپنے خاوند کے خلاف سرکشی کرے اس کی مخالفت کرے اور اس کی بات تسلیم نہ کرے تو وہ اس کے ساتھ یہ تین طریقے استعمال کرے سب سے پہلے اسے وعظ ونصیحت کرے،پھر بستر سے علیحدگی اور پھر آخر میں مار لیکن اس میں بھی یہ شرط ہے کہ وہ شدید قسم کی مار نہ ہو،جس سےاسے زخم ہویا پھر ہڈی ٹوٹنے کا خدشہ ہو۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد ایسی مار ہے جو اپنا اثر نہ چھوڑے۔امام عطاء رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے(حدیث میں موجود)غیر شدید مار کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا مسواک وغیرہ سے مارے۔
Flag Counter