Maktaba Wahhabi

460 - 492
تو حکمران اس سے خلع طلب کرلے بلکہ اسے خلع کاحکم دے۔ خلع کی صورت یہ ہے کہ خاوند بیوی کو چھوڑنے کے عوض کچھ لے یاپھر وہ کسی عوض پر متفق ہوجائیں اور پھر خاوند اپنی بیوی کو کہے کہ میں نے تجھے چھوڑ دیایا خلع کرلیا اور اس طرح کے دوسرے الفاظ کہے۔ اور طلاق خاوند کا حق ہے یہ اس وقت تک واقع نہیں ہوسکتی جب تک وہ طلاق نہ دے اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ﴿إِنَّمَا الطَّلاَقُ لِمَنْ أَخَذَ بِالسَّاقِ﴾ "طلاق صرف اس کا حق ہے جس نے پنڈلی کو تھام رکھا ہے(یعنی خاوند کا)۔"[1] اسی لیے علمائے کرام نے یہ کہا ہے کہ جسے اپنی بیوی کو طلاق دینے پر ظلماً مجبور کیا جائے اور وہ طلاق دے دے تو اس کی یہ طلاق واقع نہیں ہوگی۔[2] اور آپ نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ بیوی حکومتی قوانین کے مطابق اپنے آپ کو طلاق دے دے تو اس کے بارے میں ہم کہیں گے کہااگرتو یہ کسی ایسے سبب کی بنا پر ہے جس کی وجہ سے طلاق مباح ہوجاتی ہے مثلاً اگر وہ خاوند کو ناپسند کرنے لگے اور اس کے ساتھ زندگی نہ گزار سکے یا خاوند کے فسق وفجور اور حرام کام کے مرتکب ہونے کی وجہ سے اسے ناپسند کرنے لگے تو اسے طلاق کا مطالبہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔لیکن ایسی حالت میں وہ خاوند سے خلع کرلے اور اس کا دیا ہوا مہر واپس کردے۔اور اگر وہ طلاق کا مطالبہ کسی سبب کے بغیر کرے تو ایسا کرنا اس کےلیے جائز نہیں اور اس حالت میں عدالت کا طلاق کے متعلق فیصلہ شرعی نہیں ہوگا بلکہ بدستور عورت اس آدمی کی بیوی ہی رہے گی۔تو یہاں ایک مشکل پیش آتی ہے کہ قانونی طور پر تو یہ عورت مطلقہ شمار ہوگی اور عدت گزرنے کے بعد کہیں اور شادی کرلے گی لیکن حقیقت میں بیوی کو طلاق ہوئی ہی نہیں۔ شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ نے اس جیسے مسئلے کے متعلق کچھ اس طرح کہا ہے: ہمارے سامنے یہ شکل ہے کہ عورت کا کسی آدمی کو زوجیت میں رہتے ہوئے کہیں اور شادی کرلیناجو کہ حرام ہے۔ظاہری طور پر عدالت کے حکم کے مطابق اسے طلاق تو ہوچکی ہے اور جب عدت ختم ہوجائے تو وہ کہیں اور شادی کرسکتی ہے۔(لیکن فی الحقیقت لا علمی میں وہ حرام کاری میں مبتلا ہورہی ہے)۔
Flag Counter