Maktaba Wahhabi

83 - 492
دوسری بات یہ ہے کہ اگر عورت کا ولی اسے اپنی پسند کی شادی بغیر کسی عذر کے نہیں کرنے دیتا تو اس کی ولایت ختم ہو کر اس کے قریبی رشتہ داروں کی طرف منتقل ہو جائے گی مثلاً باپ کی بجائے دادا ولی بن جائے گا۔ تیسری بات یہ ہے کہ اگر اس کے تمام اولیاء اسے بلاعذرِ رشرعی شادی کرنے سے روکیں تو سابقہ حدیث کی وجہ سے حکمران ولی بن جائے گا کیونکہ حدیث میں ہے کہ ’’اگر وہ جھگڑا کریں تو جس کا ولی نہ ہو حکمران اس کا ولی ہے۔‘‘ چوتھی بات یہ ہے کہ اگر نہ ولی ہو اور نہ ہی حکمران تو پھر اس کی شادی وہ شخص کرے گا جسے سلطہ اور اختیار حاصل ہو گا مثلاً گاؤں کا نمبردار یا گورنر وغیرہ اور اگر یہ بھی نہ ہوں تو وہ عورت اپنی شادی کے لیے کسی بھی مسلمان امین شخص کو اپنا وکیل بنا لے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ’’اگر نکاح کا ولی نہ ہو تو ایسی حالت میں ولایت اس شخص کی طرف منتقل ہو گی جسے نکاح کے علاوہ دوسرے معاملات میں ولایت حاصل ہو مثلاً گاؤں کا نمبردار یا قافلے کا امیر وغیرہ۔‘‘[1] امام ابن قدامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ’’اگر عورت کا ولی نہ ہو او رنہ ہی حکمران ملے تو امام احمدرحمہ اللہ کا قول ہے کہ اس عورت کی اجازت سے کوئی عادل شخص اس کی شادی کر دے۔‘‘[2] اور شیخ عمر الاشقر کہتے ہیں کہ ’’جب مسلمانوں کی طاقت ختم ہو جائے اور انہیں سلطہ حاصل نہ ہویا پھر عورت کسی ایسی جگہ رہتی ہو جہاں پر مسلمان اقلیت میں ہوں اور انہیں کوئی اختیار نہ ہو،ان کا حکمران بھی نہ ہو او رنہ ہی عورت کا ولی موجود ہو مثلاً امریکہ وغیرہ اور ایسے ممالک میں اسلامی تنظیمیں ہوں جو مسلمانوں کے حالات کا خیال رکھتی ہوں تو ان میں سے کوئی ایک تنظیم اس عورت کی شادی کر دے گی۔اسی طرح اگر مسلمانوں کا کوئی امیر ہو جس کی بات تسلیم کی جاتی ہو اور اس کی طاقت ہوتی ہو یا کوئی مسؤل جو اس کے حالات کی دیکھ بھال کرتا ہو،وہ عورت کا ولی بنے گا۔‘‘ [3]
Flag Counter