Maktaba Wahhabi

147 - 868
ہو جاتے ہیں،کیا ان کے لیے ان کپڑوں میں نماز پڑھنا جائز ہے؟ چونکہ یہ کام ہی اس طرح کا ہے کہ اس میں ہر نماز کے لیے بار بار کپڑے تبدیل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے؟ جواب: ان کے لیے ضروری ہے کہ اپنے پاک کپڑے اپنے پاس رکھا کریں،تاکہ ان نجس کپڑوں کی بجائے پاک کپڑوں میں نماز پڑھ سکیں۔اور اس میں کوئی ایسی مشقت والی بات نہیں ہے۔(مجلس افتاء) سوال: عورت کے بچے ہوئے پانی سے مرد کے لیے طہارت کا کیا حکم ہے؟ جواب: اس مسئلہ میں علماء کے مابین مشہور اختلاف ہے۔اور جمہور کا مسلک یہ ہے کہ عورت کے بچے ہوئے پانی سے مرد کے لیے طہارت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔یہ پانی خواہ اس کے وضو سے بچا ہو یا غسل سے یا استنجا سے۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے منقول روایات میں سے ایک روایت یہی ہے کہ مرد کے لیے اس کا استعمال بالکل درست ہے۔جیسے کہ حدیث میں ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے بچے ہوئے پانی سے غسل فرمایا تھا۔"[1] اور یہ بات اس روایت سے زیادہ صحیح ہے جس میں مرد کے لیے عورت کا بچا ہوا پانی استعمال کرنے کی منع آئی ہے۔[2] اگرچہ کئی اہل علم نے اس کو ضعیف کہا ہے۔ مگر اس قول (جواز) کی تائید ان عمومی ارشادات سے ہوتی ہے جن میں حکم ہے کہ پانی سے طہارت کرو،اور ان میں اس طرح کی کوئی قید اور پابندی کا ذکر نہیں ہے (کہ وہ عورت کا بچا ہوا نہ ہو)۔لہذا ہر وہ پانی جو کسی نجاست سے آلودہ نہ ہوا ہو،وہ اس حکم عام میں داخل ہے،اور اللہ کا بھی حکم ہے کہ: فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا (المائدہ 5؍6) "اگر تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔" اللہ تعالیٰ نے جب تک پانی موجود ہو تیمم کی اجازت نہیں دی ہے۔اور عورت کا مستعمل پانی،بلاشک "پانی" ہے۔اور شارع علیہ السلام کسی چیز سے بغیر کسی سبب کے منع نہیں فرماتے ہیں۔اور اسی بقیہ پانی کے متعلق آپ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ "پانی جنبی نہیں ہوتا ہے۔"[3] اگر مرد کے لیے عورت کے بقیہ پانی سے
Flag Counter