Maktaba Wahhabi

195 - 868
(استحاضہ:اگر یہ خون معمول کی عادت سے بہت زیادہ دن آنے لگے تو اسے استحاضہ کہتے ہیں۔)[1] نفاس کا خون وہ ہوتا ہے جو کسی خاتون کو ولادت کے باعث آتا ہے،حمل کے وقت سے رحم میں رکا رہتا ہے اور پھر ولادت کے موقعہ پر موقعہ بموقعہ آتا رہتا ہے۔اس کی مدت کبھی تو بہت لمبی ہو جاتی ہے اور کبھی کم بھی ہوتی ہے۔مدت کم سے کم ہونے کی کوئی تعیین نہیں ہے اور زیادہ سے زیادہ کی راجح قول کے مطابق کوئی تعیین نہیں ہے۔اس کی دلیل آگے مسئلہ حیض میں ذکر ہو گی،اور فقہ حنبلی کی رُو سے جو چالیس ایام سے بڑھ جائے اور حیض کی معروف عادت کے مطابق نہ ہو تو وہ استحاضہ ہوتا ہے۔ سوال:جب کسی عورت کو حمل ظاہر ہو چکا ہو،پھر بھی وہ ماہانہ عادت کے مطابق خون دیکھے تو کیا اس پر حیض کے احکام آئیں گے؟ جواب:جب کسی عورت کے متعلق واضح ہو چکا ہو کہ وہ حمل سے ہے پھر بھی وہ اپنی عادت کے مطابق خون دیکھے تو اس میں اختلاف ہے کہ آیا حاملہ کو بھی حیض آتا ہے یا نہیں؟ حنابلہ کا مذہب یہ ہے کہ حاملہ کو حیض نہیں آتا،لہذا حمل کے دوران جو خون ہو وہ کسی اندرونی خرابی کا باعث ہو گا اور وہ اس سبب سے عبادت نہیں چھوڑ سکتی۔ جب کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے ایک دوسری روایت یہ بھی ہے کہ حاملہ کو کبھی حیض بھی آ جایا کرتا ہے اور یہ کسی خرابی کے باعث نہیں آتا اور وہ عورت بالکل تبدرست ہوتی ہے اور اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔سو اسے خون حیض ہی کہا جائے گا اور اس پر حیض کے احکام ہی جاری ہوں گے اور ہمارا رجحان بھی اسی طرف ہے۔(عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی) سوال:جب کسی عورت کے ماہانہ نظام میں کمی بیشی یا ایام میں تقدیم تاخیر کے حساب سے خرابی آ جائے،تو وہ کیا کرے؟ جواب:بعض حنبلی علماء نے جو یہ لکھا ہے کہ اس طرح کے خلل میں عورت اپنی سابقہ عادت ہی پر عمل کرے،نئی صورت پر عمل نہ کرے،حتیٰ کہ اسے یہ نئی صورت بار بار لاحق ہو،تو یہ محض ایک قول ہی ہے جس پر عمل نہیں ہے۔بلکہ عمل اس قول صحیح پر رہا ہے جس کا "الانصاف" میں ذکر ہوا ہے اور عورتوں کو اس قول پر عمل کرنا چاہیے ۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ عورت جب خون دیکھے تو اپنی عبادت نماز روزے سے توقف کرے اور جب واضح طور پر پاک ہو (طہر آ جائے) تو غسل کرے اور نماز پڑھے،خواہ اس کی تاریخوں میں کسی قدر تقدیم ہو جائے یا تاخیر،اور اسی طرح خون کم آئے یا زیادہ،مثلا اس کی عادت پانچ ایام کی تھی ۔۔مگر کسی دفعہ سات دن آ گئے،تو یہ سات دن ہی حیض شمار کرے،اس طرف متوجہ نہ ہو کہ اس سے پہلے کیا عادت تھی۔اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور ان کے بعد کی خواتین کا اس پر عمل تھا۔حتیٰ کہ ہمارے دور کے مشائخ کے فتاویٰ بھی یہی ہیں۔کیونکہ وہ قول جو شروع میں بتایا
Flag Counter