Maktaba Wahhabi

236 - 868
سوال:عورت کے لیے نماز میں ہاتھ اور پاؤں ڈھانپنے یا ننگے رکھنے کا کیا حکم ہے اور اس کی دلیل کیا ہے؟ جواب:عورت سے متعلق اس مسئلے کی دلیل حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے اور سنن ترمذی میں بسند صحیح آئی ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "الْمَرْأَةُ عَوْرَةٌ فَإِذَا خَرَجَتِ اسْتَشْرَفَهَا الشَّيْطَانُ"[1] "عورت قابل ستر ہے،جب یہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے تاکتا اور جھانکتا ہے۔" اس میں ہے کہ عورت کا سارا بدن قابل ستر ہے سوائے اس کے جسے شریعت نے مستثنی کر دیا ہے۔جمہور کے نزدیک عورت کا چہرہ اور دونوں ہاتھ ستر میں شامل نہیں ہیں۔تو اسے اجازت ہے کہ نماز میں وہ انہیں نہ ڈھانپے۔لہذا جمہور کے نزدیک چہرے اور ہاتھوں سے زیادہ حصے کو ننگا کرنا حرام ہے۔لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ عورت اپنے پاؤں بھی ننگے رکھ سکتی ہے اور ان کی دلیل سنت اور قیاس ہے۔ سنت کی دلیل جو امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کو ترجیح میں ذکر کی ہے۔ حضرت اُم سلمہ کی حدیث ہے جو سنن ابوداؤد میں مروی ہے۔کہتی ہیں کہ اے اللہ کے رسول!کیا عورت اپنی لمبی قمیص اور اوڑھنی میں نماز پڑھ لے جبکہ اس نے نیچے چادر نہ باندھی ہو؟ آپ نے فرمایا:ہاں،جب اس کی قمیص پوری اور کامل ہو کہ اس کے پاؤں کی پشت کو بھی ڈھانپ لے" (تو درست ہے)۔" [2] تو ہو سکتا ہے کہ عورت جب رکوع کرے تو اس کی ایڑیاں نمایاں ہو جائیں اور سجدے میں اس کے تلوے بھی ننگے ہوں گے ۔۔لیکن یہ حدیث ضعیف ہے اس کی سند میں ایک مجہول عورت کا واسطہ ہے۔نیز یہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے موقوف بھی مروی ہے اور اس سند میں بھی اس مجہول کا واسطہ ہے۔ اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قدموں کو ہاتھوں پر قیاس کیا گیا ہے کیونکہ جس طرح ہاتھوں کو نمایاں کرنا پڑتا ہے ایسے ہی قدموں کو بھی نمایاں کرنا پڑتا ہے۔جمہور نے اس قیاس پر اعتراض کیا ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کا نمایاں کرنا،اصل قاعدہ کے خلاف ہے۔ان (جمہور) کے نزدیک اصل یہ ہے جو بیان ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ "عورت قابل ستر ہے"[3] چنانچہ شریعت نے اجازت صرف چہرے اور ہاتھوں کی دی ہے۔شریعت
Flag Counter