Maktaba Wahhabi

239 - 868
عمرو اورابو قتادہ رضی اللہ عنہما سے حل ہوتے ہیں۔[1]ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے عشاء کا وقت متعین ہوتا ہے کہ آیا اس کا وقت آدھی رات تک ہے جیسے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور اہل ظاہر کہتے ہیں یا نماز فجر تک،جیسے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور کا قول ہے۔تو اس میں راجح امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہ ہے کہ عشاء کا وقت آدھی رات تک ہے اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث میں یہ بیان ہے کہ نمازوں کے اوقات ایک دوسرے کے اندر داخل نہیں ہیں بلکہ ہر ایک کے مستقبل اور علیحدہ علیحدہ اوقات ہیں۔[2] جانب دوم:۔۔وہ اوقات جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ ان اوقات کی ابتدا میں نماز ادا کرنا مستحب ہے۔مگر یہ مجمل اور مطلق صورت ہے،جو صحیحین میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بیان ہوئی ہے۔کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ "کون سا عمل اللہ عزوجل کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟" آپ نے فرمایا: "الصلاة على وقتها " "نماز اپنے وقت پر ادا کرنا۔" جبکہ حاکم کی روایت کے لفظ ہیں: "الصلاة فى اول وقتها " [3] "نماز اپنے اول وقت میں ادا کرنا۔" اور سند اس کی صحیح ہے۔مگر اس عموم سے دو اوقات مستثنیٰ ہیں۔ایک نماز ظہر،جب گرمی سخت ہو تو اسے ٹھنڈا کر کے پڑھا جائے جسے کہ ابراء کہتے ہیں۔صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا بِالصَّلاةِ،فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ " [4]
Flag Counter