Maktaba Wahhabi

240 - 868
"یعنی جب گرمی بہت سخت ہو تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھا کرو،بلاشبہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ میں سے ہے۔" اور اسی طرح حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی روایت بھی ہے جو صحیحین میں مروی ہے،کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے کہ مؤذن نے ظہر کی اذان کہنے کا ارادہ کیا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ذرا ٹھنڈی کر لو۔" حتیٰ کہ ہم نے ٹیلوں کے سائے دیکھے اور آپ نے فرمایا: "بلاشبہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ میں سے ہے،تو جب گرمی سخت ہوا کرے تو نماز ٹھنڈی کر کے پڑھا کرو۔" [1] اور دوسرا استثناء نماز عشاء کو آدھی رات تک مؤخر کرنا ہے،جہاں تک کہ لوگوں کے لیے مشقت نہ ہو،جیسے کہ حدیث میں آیا ہے اور نماز فجر کے بارے میں بھی اختلاف ہے کہ آیا اسے منہ اندھیرے (غلس) میں پڑھنا افضل ہے یا جب فضا میں سفیدی آ جائے (یعنی اسفار)۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسے فجر کے اندھیرے میں پڑھنا ہی افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل یہی ہے۔ جانب سوم:۔۔ان اوقات کا جاننا جن میں نماز مکروہ اور ناجائز ہے اور اس مسئلے میں دو حدیثیں آئی ہیں:ایک حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ[2]سے اور دوسری عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ[3]سے اور دونوں ہی صحیح مسلم میں آئی ہیں۔(محمد بن عبدالمقصود) سوال:ایک عورت تقریبا تین ہفتے زیر علاج رہی اور اس دوران نماز روزہ ادا نہیں کر سکی ۔۔اس کا کیا حکم ہے؟ جواب:آپ پر لازم ہے کہ اپنی چھوڑی ہوئی نمازیں جہاں تک ہو سکے ترتیب سے ادا کریں۔اگر بلا مشقت ایک ہی دن میں ادا کیا جا سکے تو بہتر ورنہ دنوں اور اوقات کے حساب سے تقسیم کر کے پوری کریں۔اور جو روزے آپ نے مرض کے باعث چھوڑے تھے اور تندرست ہونے پر رکھ لیے ہیں تو اب آپ پر کچھ نہیں ہے۔(محمد بن ابراہیم آل الشیخ)
Flag Counter