Maktaba Wahhabi

242 - 868
کہ اسے ایام شروع ہوئے تھے،کیونکہ اس نے کوئی قصور نہیں کیا تھا اور وہ گناہگار نہیں ہوئی تھی کیونکہ انسان کے لیے اجازت ہے کہ وہ نماز کے آخر وقت تک نماز مؤخر کر سکتا ہے اور بعض دوسرے علماء کا کہنا ہے کہ اس پر واجب ہے کہ وہ اپنی یہ نماز دہرائے۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان " جس نے نماز کی ایک رکعت پا لی اس نے نماز پا لی"[1] کے عموم کا یہی تقاضا ہے اور اسی میں احتیاط ہے کہ وہ اس کی قضا دے اور پھر یہ ہے بھی صرف ایک نماز،اس کی قضا دینے میں کوئی مشقت بھی نہیں ہے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:جب کوئی عورت نماز کا وقت شروع ہو جانے کے بعد ایام مخصوصہ میں مبتلا ہو،تو کیا اسے پاک ہونے کے بعد اپنی اس نماز کی قضا دینا لازم ہو گا ۔۔اور ایسے ہی جب ایسے وقت میں پاک ہو کہ نماز کا وقت باقی ہو ۔۔؟ جواب:اس مسئلے کے دو پہلو ہیں: اول:۔۔جب کوئی عورت نماز کا وقت شروع ہونے کے بعد اپنے ایام مخصوصہ میں مبتلا ہو اور اس نے وہ نماز نہ پڑھی ہو تو اس پر واجب ہے کہ پاک ہونے پر اپنی اس نماز کی قضا دے جس کے وقت میں اسے حیض شروع ہوا تھا۔اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الصَّلاةِ،فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلاةَ"[2] "جس نے نماز کی ایک رکعت پا لی اس نے نماز پا لی۔" تو جب عورت نے نماز کے وقت میں سے اتنا وقت پا لیا ہو،جس میں وہ ایک رکعت پڑھ سکتی ہے۔اور اس نے وہ نماز نہیں پڑھی تھی ۔۔تو پاک ہونے کے بعد اسے اپنی وہ نماز ادا کرنی ہو گی۔ دوم:۔۔اگر کوئی عورت ایسے وقت میں اپنے ایام سے پاک ہوئی ہے جب اس وقت کی نماز کا وقت باقی ہو تو اسے وہ نماز پڑھنی لازم ہو گی۔مثلا اگر کوئی مغرب سے اتنی دیر پہلے پاک ہوتی ہے جس میں کہ وہ ایک رکعت پڑھ سکتی تھی تو اس پر عصر کی نماز پڑھنا واجب ہو گی،اور اگر وہ آدھی رات سے اتنا پہلے پاک ہوتی ہے کہ ایک رکعت پڑھ سکتی تھی تو اس پر عشاء کی نماز پڑھنا واجب ہو گی،اور اگر آدھی رات کے بعد پاک ہوتی ہے تو عشاء کی نماز واجب نہیں ہو گی،اسے فجت کا وقت ہونے پر فجر کی نماز ہی پڑھنا ہو گی۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا﴿١٠٣﴾(النساء 4؍103) "اور جب تمہیں اطمینان حاصل ہو جائے تو نماز قائم کرو،بلاشبہ نماز مومنین پر اپنے وقت میں فرض
Flag Counter