Maktaba Wahhabi

315 - 868
اور یہ زیارت مردوں کے لیے خاص ہے،عورتوں کے لیے نہیں۔عورتوں کے لیے قبرستان جانا جائز نہیں،بلکہ انہیں اس سے روکنا واجب ہے۔حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کے لیے جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔[1] اور یہ بھی ہے کہ عورتوں کے اس عمل میں خود ان کے لیے فتنے کا ڈر ہے یا وہ دوسروں کے لیے فتنے کا باعث ہو سکتی ہیں اور ان میں صبر کا مادہ بہت کم ہوتا ہے،اور ایسے مواقع پریہ جزع فزع[2] ان پر غالب ہوتی ہے۔ ایسے ہی ان عورتوں کے لیے قبرستان میں جنازوں کے پیچھے جانا جائز نہیں ہے۔صحیح حدیث میں سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،کہتی ہیں کہ "ہمیں جنازوں کے پیچھے جانے سے منع کیا گیا ہے،مگر آپ نے (اس منع کو) ہم پر واجب اور لازم نہیں فرمایا۔"[3] یہ حدیث دلیل ہے کہ عورت کو قبرستان جانے سے منع کیا گیا ہے۔کیونکہ اس میں خود ان کے لیے فتنے کا ڈر ہے یا وہ دوسروں کے لیے فتنے کا باعث ہو سکتی ہیں،اور ان میں صبر بھی کم ہوتا ہے۔اور قاعدہ ہے کہ کسی کام سے نہی میں بنیادی طور پر اس کے حرام ہونے کے معنی ہوتے ہیں،اور اللہ عزوجل کا فرمان ہے: وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا (الحشر:59؍7) "رسول جو کچھ تمہیں دیں وہ لے لو،اور جس سے منع کر دیں اس سے باز رہو۔" اور میت کے لیے دعا کرنا مردوں عورتوں سب کے لیے مشروع اور جائز ہے،جیسے کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے،اور مذکورہ بالا حدیث میں سیدہ اُم عطیہ رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ "ہم عورتوں کو قبرستان جانے کی ممانعت کو واجب اور لازم نہیں فرمایا گیا۔اس میں ان کے لیے قبرستان جانے کا جواز نہیں ہے۔کیونکہ آپ علیہ السلام کا اسی کام سے روک دینا ہی اس منع کے لیے کافی ہے۔اور ان کا یہ جملہ "ہم پرواجب نہیں فرمایا" یہ ان کا اپنا اجتہاد اور گمان ہے،اور ان کے اجتہاد کو فرمان رسول کے مقابلے میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔
Flag Counter