Maktaba Wahhabi

316 - 868
(2) ۔۔۔زیارت قبور کی دوسری قسم جوجائز نہیں ہے،یہ ہے کہ آدمی قبرستان جائے اور ان اموات سے دعا و استغاثہ کرے،اس کے لیے کوئی نذر و نیاز پیش کرے یا کوئی جانور ذبح کرے،یہ بالکل ناجائز اور شرک اکبر ہے۔اللہ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے اور اس کے ساتھ یہ بھی ملحق ہے کہ زیارت کرنے والا کسی قبر پر جا کر اپنے لیے دعا مانگنے،نماز پڑھے یا تلاوت کرے۔یہ بھی بدعت ہے اور ناجائز ہے اور شرک کے وسائل میں سے ہے۔تو اس طرح زیارت قبور کی تین قسمیں ہوئیں: 1: پہلی قسم سنت اور جائز ہے کہ آدمی ان اموات کے لیے دعا کرے اور اسے آخرت یاد آئے۔ 2: دوسری قسم یہ کہ قبر پر جا کر اپنے لیے دعا کرے،نماز پڑھے،یا کوئی قربانی وغیرہ کرے تو یہ بدعت ہے اور شرک کا وسیلہ ہے۔ 3: تیسری قسم کہ آدمی میت کے لیے نذر و نیاز پیش کرے،کوئی جانور ذبح کرے اور اس سے اس میت کا قرب چاہے،یا اللہ کو چھوڑ کر اس میت سے دعائیں کرے یا کسی طرح کی مدد طلب کرے،تو یہ سب شرک اکبر ہے۔اللہ اس سے محفوط رکھے۔ ان بدعی زیارتوں سے دور رہنا واجب ہے،اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ قبر کسی ولی کی ہو یا نبی اور صالح کی۔اور اس مسئلہ میں وہ سب شامل ہیں جو جاہل لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر کرتے ہیں،آپ سے دعائیں مانگتے ہیں یا مددوغیرہ مانگتے ہیں۔اسی طرح جو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ یا شیخ عبدالقادر جیلانی وغیرہ کی قبروں پر کیا جاتا ہے۔اور مدد اللہ ہی سے ہے۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:عورت کے لیے زیارت قبور کا کیا حکم ہے؟ اگر کسی عورت کا کوئی قریبی عزیز فوت ہو جائے تو کیا وہ شرعی آداب کے ساتھ باپردہ جنازہ کے ساتھ جا سکتی ہے؟ جواب:جمہور اہل علم کے مطابق عورت کے لیے زیارت قبور جائز ہے۔امام احمد رحمہ اللہ سے اس بارے میں دو روایتیں آئی ہیں۔ایک میں انہوں نے اس عمل کو حرام کہا ہے،اور اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کے لیے جانے والیوں پر لعنت کی ہے۔"[1] مگر یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح نہیں ہے،بلکہ اس سے صحیح تر وہ روایت ہے جو امام احمد اور ترمذی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے: " لعن زوارات القبور " یعنی آپ نے ان عورتوں پر لعنت کی ہے کہ جو بہت کثرت سے قبروں کی زیارت کےلیے جاتی ہیں۔" [2]
Flag Counter