Maktaba Wahhabi

383 - 868
"اور پورا کرو حج اور عمرے کو اللہ کے لیے۔" اور فرمایا: فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا (البقرۃ:2؍158) "جو بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ،تو اس پر صفا اور مروہ کی سعی کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔" مقصد یہ ہے کہ اللہ عزوجل نے اتمام (پورا کرنے) کا حکم دیا تو فرمایا کہ حج و عمرہ کو پورا کرو۔اور یہ آیت کریمہ باتفاق علماء حدیبیہ کے سال یعنی ہجرت کے چھٹے سال اور آل عمران کی آیت (وجوب حج کے سلسلہ میں) نویں یا دسویں سال نازل ہوئی تھی،اور اسی موقعہ پر حج فرض کیا گیا تھا۔ صحیح تر قول یہی ہے کہ حج بعد میں فرض ہوا ہے۔اور جو کہتے ہیں کہ یہ چھٹے سال فرض ہوا تھا،ان کا استدلال اسی آیت کریمہ سے ہے جس میں اتمام کا حکم ہے۔مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے کیونکہ دراصل اس میں حکم ہے کہ جو شخص یہ عمل شروع کر چکا ہو وہ اسے پورا کرے۔اس میں حج و عمرہ کے شروع کرنے کا حکم نہیں ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کریمہ کے نزول سے پہلے جب حدیبیہ کا عمرہ کیا،تو اس وقت تک حج یا عمرہ فرض نہیں کیا گیا تھا،پھر جب مشرکین نے آپ کو روک دیا تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اس میں حج و عمرہ کے مکمل کرنے کا حکم دیا گیا اور محصر کے احکام بتائے گئے کہ جسے بیت اللہ سے روک دیا گیا ہو وہ اسے پورا کرے۔اور اسی لیے تمام ائمہ کرام کا اتفاق ہے کہ حج و عمرہ جب شروع کر دیا گیا ہو تو انہیں پورا کرنا لازم ہے۔ان کے مقابلے میں روزہ،نماز اور اعتکاف کے بارے میں اختلاف ہے۔ اور عمرہ کے اعمال حج ہی کی طرح کے ہیں یعنی احرام،طواف،سعی اور پھر حلال ہو جانا،اور یہی اعمال حج میں بھی ہوتے ہیں،اور حج اللہ نے ایک بار فرض فرمایا ہے،دوبار نہیں۔بلکہ کوئی بھی فریضہ ایسا نہیں جو دوبار فرض کیا گیا ہو۔اور طواف وداع حج کا حصہ نہیں ہے۔یہ (طواف وداع) اسی بندے کے لیے ہے،جو مکہ سے روانہ ہونا چاہتا ہو۔لہذا جو مکہ میں مقیم ہو اس پر یہ طواف نہیں ہے۔اور حاجیوں میں سے بھی ہر ایک پر فرض نہیں ہے بلکہ حائضہ عورت سے یہ ساقط ہے۔اگر وہ یہ نہ کر سکے تو قربانی اس سے کفایت کر جاتی ہے اور اس کے ترک سے حج باطل نہیں ہوتا ہے،بخلاف اس کے جو طواف فرض ہے یا وقوف عرفات ہے (اس کے بغیر حج نہیں ہے) اور سعی صفا و مروہ ایک بار ہے،یوم النحر میں رمی جمرات ایک ایک بار ہے اور حلق و تقصیر بھی ایک ہی بار ہے۔تو اس تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ عمرے میں حج والے اعمال ہیں،اور اعمال حج اللہ نے ایک بار فرض کیے ہیں نہ کہ دو بار،تو عمرہ فرض نہیں ہے۔ اس موضوع پر جو ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ "عمرہ ایک چھوٹا حج ہے ۔۔"[1] اس سے بعض علمائے
Flag Counter