Maktaba Wahhabi

428 - 868
حمل سے ہے،تو یہ جائز ہے،اگرچہ بچے کو بنیادی طور پر دو سال کے لیے دودھ پلایا جانا چاہیے۔ جیسے کہ اللہ عزوجل نے فرمایا ہے: وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ (البقرۃ:2؍233) "مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال تک دودھ پلائیں،یہ اس کے لیے ہے جو رضاعت پوری کرنا چاہیں۔" اس ارشاد میں اس معاملے کو "ماں باپ کے چاہنے" کے ساتھ معلق اور مشروط ٹھہرایا گیا ہے،جو دلیل ہے کہ قبل از وقت دودھ چھڑانا جائز ہے۔اور طبی طور پر بھی مسلم ہے کہ حمل سے دودھ کی غذائیت میں فرق آ جاتا ہے،کیونکہ شکم مادر میں پرورش پانے والا نیا بچہ اپنی مطلوبہ غذا کا کافی حصہ لے لیتا ہے،اگرچہ ماں کو کیلشیم اور دیگر مقویات اپنی غذا میں لینی پڑتی ہیں،مگر بچہ اس کے باوجود ماں کی ہڈیوں اور بطن سے اپنی ضروریات کشید کر لیتا ہے،اور دودھ پینے والے بچے کے دودھ کے فوائد میں بہت کمی آ جاتی ہے۔ تاہم احادیث میں وارد ہے جیسے کہ صحیح مسلم میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"قریب تھا کہ میں غیلہ سے منع کر دوں (یعنی ایام رضاعت میں ماں حاملہ ہو) مگر میں نے دیکھا ہے کہ اہل فارس یہ کرتے ہیں اور ان کو کوئی ضرر نہیں ہوتا۔"[1] (محمد بن عبدالمقصود) سوال:میں اپنی والدہ اور دادی کو عمرہ کے لیے لے کر آیا۔جب ہم طواف کرنے لگے تو میں نے دیکھا کہ وہ برقعے پہنے ہوئے تھیں،تو میں نے کہا کہ یہ اتار دیں،اور پردے کی چادر چہرے پر لٹکائیں،تو اس کا کیا حکم ہے؟ جواب:حکم یہ ہے کہ عورت جب احرام باندھے لے تو اسے برقع پہننا جائز نہیں ہے۔آپ علیہ السلام کا عورت کے لیے یہی حکم ہے کہ (لا تنتقب المراة) [2] "یعنی حالت احرام میں نقاب یا برقع نہ پہنے۔"[3] اور برقع نقاب سے بھی بڑا ہوتا ہے۔لیکن اگر کسی نے جہالت سے پہن لیا ہو اور اس کا خیال تھا کہ اس میں کوئی حرج نہیں تو اس پر کچھ نہیں ہے،نہ فدیہ ہے اور نہ کوئی گناہ،اور نہ ہی عمرے میں کوئی نقص آیا ہے،کیونکہ یہ جاہل اور لاعلم تھی،اور احرام کے دوران میں دیگر پابندیوں کا یہی حکم ہے مثلا کوئی جہالت سے یا بھول کر اپنا سر
Flag Counter