Maktaba Wahhabi

429 - 868
منڈوا لے،یا سلا ہوا لباس پہن لے،یا خوشبو استعمال کر بیٹھے،یا کوئی دوسرا اس کو ان کاموں پر مجبور کر دے اور اسے کرنا پڑے تو ایسے شخص پر کوئی گناہ نہیں ہے اور نہ کوئی فدیہ ہے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:دیکھا جاتا ہے کہ بعض طواف کرنے والے اپنی عورتوں کو دھکے دے دے کر حجر اسود کے بوسے کے لیے انہیں آگے بڑھاتے ہیں۔اس مسئلہ میں کیا افضل ہے،حجر اسود کا بوسہ لینا،یا مردوں کی بھیڑ سے دور رہنا؟ جواب:اگر سائل نے یہ عجیب (اور مکروہ) منظر دیکھا ہے،تو میں نے اس سے بڑھ کر دیکھا ہے کہ کئی لوگ فرض نماز کا سلام پھرنے سے پہلے ہی حجر اسود کے بوسے کے لیے بھاگ اٹھتے ہیں،اور اس طرح ان کی نماز باطل ہو جاتی ہے،جو اسلام کا عظیم ترین رکن ہے،اس کے مقابلے میں ایک ایسا عمل کرنا چاہتے ہیں جو کسی طرح واجب نہیں ہے،بلکہ یہ اسی صورت میں مسنون ہے جب بندہ طواف کر رہا ہو۔اور یہ ایک ایسی جہالت ہے جس میں لوگوں کا ایک بڑا طبقہ مبتلا ہے،جس پر بہت افسوس ہوتا ہے۔حجر اسود کو بوسہ دینا اور ہاتھ لگانا صرف طواف کے دوران ہی میں سنت ہے۔مستقل طور پر بلا طواف اس کے سنت ہونے کا مجھے کوئی علم نہیں ہے۔اور میں امید کرتا ہوں کہ اگر کسی کو اس بارے میں کوئی علم ہو تو مجھے آگاہ کر دے۔جزاکم اللّٰہ خیرا الغرض حجر اسود کا بوسہ طوف کی سنتوں میں سے ہے،اور وہ بھی اس صورت میں کہ اس میں کسی کے لیے کوئی اذیت نہ ہو۔نہ خود طواف کرنے والے کے لیے اور نہ کسی دوسرے کے لیے۔اگر اس میں اذیت ہو تو اس کا دوسرا طریقہ ہے جو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے کہ انسان اسے صرف ہاتھ لگا لے اور پھر اپنے ہاتھ کو چوم لے۔اگر اس میں بھی اذیت ہو تو تیسرا طریقہ یہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشروع فرمایا ہے کہ حجر اسود کی طرف اشارہ کر لے،ایک ہاتھ سے،دو ہاتھوں سے نہیں۔اپنے داہنے ہاتھ سے،صرف اشارہ کرے اور پھر چومے نہیں۔[1] اس مسئلہ میں سنت یہی ہے۔مگر معاملہ بہت گھمبیر ہے،اور پریشان کن۔جیسے کہ سائل نے پوچھا ہے کہ مرد اپنی عورتوں کو حجر اسود کی طرف دھکیلتا ہے۔ممکن ہے وہ عورت حمل سے ہو،یا بوڑھی ہو،یا نوجوان ہو،جو ایسا نہیں کر سکتی۔اور بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ وہ بچے کو ہاتھوں پر اٹھا کر آگے بڑھاتا ہے۔تو یہ سب صورتیں غلط ہیں۔اس سے گھر والوں کو اذیت ہو سکتی ہے،اور مردوں کے ساتھ دھکم پیل ہوتی ہے۔اور یہ صورتیں کہیں تو حرام ہیں اور کہیں مکروہ۔ مختصر یہ کہ آدمی کو ایسے نہیں کرنا چاہیے۔ جبکہ اس میں بحمداللہ بہت وسعت ہے،تو آپ کو چاہیے کہ وسعت سے کام لیں،اپنے اوپر شدت اور سختی نہ کریں ورنہ اللہ عزوجل بھی شدت کرے گا۔(محمد بن صالح عثیمین)
Flag Counter