Maktaba Wahhabi

433 - 868
اور اگر کوئی انسان لازمی مہر کے بغیر کسی عورت سے نکاح کرتا ہے تو اس پر مہر مثل واجب ہو جاتا ہے۔اور یہ بھی جائز ہے کہ انسان اس شرط پر نکاح کر لے کہ وہ عورت کو قرآن،حدیث یا دیگر مفید علوم کا ایک حصہ پڑھائے گا۔کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا واقعہ میں جب اس خواہش مند کو کچھ بھی مال نہ ملا تو آپ نے اس سے اس عورت کا نکاح اس شرط پر کر دیا کہ وہ اسے قرآن کریم پڑھا دے۔[1] اور مہر عورت کا حق ہوتا ہے،اور اگر وہ از خود اس سے دست بردار ہو جائے بشرطیکہ وہ رشیدہ یعنی سمجھدار اور اپنے نفع نقصان کو سمجھتی ہو،تو یہ جائز ہے،اس بارے میں اللہ عزوجل کا فرمان ہے: وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا﴿٤﴾(النساء:4؍4) "اور عورتوں کے مہر ان کی خوشی سے دے دیا کرو۔ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ تم کو چھوڑ دیں،تو اسے ذوق و شوق سے کھا لو۔" (عبدالعزیز بن باز) سوال:کیا آدمی کے لیے جائز ہے کہ اپنی بیٹی یا بہن کو ملنے والے حق مہر سے کسی اور کی شادی کرے؟ جواب:بیٹی یا بہن کو ملنے والا مہر اس (بیٹی یا بہن) کا اپنا ذاتی ملکیتی حق ہوتا ہے۔اگر وہ سارے کا سارا یا اس میں سے کچھ اپنی خوشی اور شرعی اعتبار کے اختیار سے دے تو جائز ہے۔اور اگر وہ نہیں دیتی تو لینا جائز نہیں ہے،نہ کم نہ زیادہ۔البتہ باپ کے لیے ایک خصوصیت ہے کہ وہ اس میں سے اس قدر لے سکتا ہے کہ اسے نقصان نہ ہو،اور یہ بھی درست نہیں کہ وہ یہ لے کر کسی ایک بچے کو دے دے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان صحیح احادیث میں ثابت ہے کہ:"بہترین پاکیزہ مال جو تم کھاتے ہو وہی ہے جو تمہاری اپنی کمائی سے ہو،اور تمہاری اولاد تمہاری کمائی ہی ہے۔"[2] (عبدالعزیز بن باز) سوال:کیا حق مہر کو مؤخر کیا جا سکتا ہے،اور کیا اس میں زکاۃ واجب ہو گی؟ جواب:حق مہر کو مؤخر کیا جا سکتا ہے،اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ (المائدۃ:5؍1)
Flag Counter