Maktaba Wahhabi

478 - 868
(۱)۔۔لعان کرے۔(۲)۔۔لعان نہ کرے۔(۳)۔۔اور اگر بچہ ہو اور وہ اس سے انکار کرنا چاہتا ہو تو لعان کرے ورنہ نہیں۔اور اس عورت کا حق مہر اس شوہر کے ذمے رہے گا،لعان سے ساقط نہیں ہو گا جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے،اور اس پر ائمہ کا اتفاق ہے۔سوائے اس کے جو ہم نے لعان کے بارے میں ذکر کیا،اس میں تین قول ہیں: 1۔ لعان نہ کرے بلکہ اسے تہمت کی حد لگائی جائے اور شہادت ساقط کر دی جائے۔امام احمد رحمہ اللہ سے مروی سب سے مشہور روایت یہی ہے،اور امام شافعی رحمہ اللہ کے اقوال میں سے ایک قول یہی ہے۔ 2۔ لعان کرے۔یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے اور ایک قول امام احمد رحمہ اللہ کا بھی ہے۔ 3۔ اگر حمل ہو تو لعان کرے اگر شوہر اس کا انکار کرتا ہو،ورنہ نہیں۔مذہب امام شافعی رحمہ اللہ کے دو اقوال میں سے ایک قول یہی ہے اور امام احمد رحمہ اللہ کی بھی ایک روایت اسی طرح ہے۔واللہ اعلم۔(امام ابن تیمیہ) سوال:کیا بیوی پر لعنت کرنا طلاق کے معنی میں ہے یا نہیں؟ جواب:لعنت سے بیوی کو طلاق نہیں ہوتی ہے،بلکہ وہ اپنے شوہر کی عصمت ہی میں باقی رہتی ہے۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:اگر بیوی اپنے شوہر سے ظہار کا انداز اپنائے تو کیا یہ ظہار ہوتا ہے؟ جواب:اصحاب احمد رحمہ اللہ نے اس کیفیت کو اگرچہ شوہر کے ظہار کرنے پر قیاس کرتے ہوئے کہا ہے کہ عورت پر کفارۂ ظہار واجب ہے،مگر یہ شرعی ظہار نہیں ہے،یہ قیاس ظاہر قرآن کے خلاف ہے۔قرآن کریم میں کفارہ کا جو حکم ہے وہ اس صورت میں ہے جب شوہر اپنی بیوی سے ظہار کرے۔اور یہی روایت امام احمد رحمہ اللہ سے صحیح ہے۔[1] (عبدالرحمٰن السعدی) سوال:اگر کوئی عورت اپنے شوہر سے یوں کہے کہ اگر تو نے اس طرح کیا تو تو مجھ پر حرام ہے جیسے کہ میرا باپ،یا وہ اسے لعنت کرے،یا شوہر بیوی کے شر سے اللہ کی پناہ چاہے،یا اگر اس کے برعکس ہو تو ان صورتوں میں کیا حکم ہے؟ جواب:بیوی اپنے شوہر کو اپنے لیے حرام ٹھہرائے یا اسے اپنے کسی محرم سے تشبیہ دے تو اس کا حکم قسم کا سا ہے،ظہار کا حکم نہیں ہے۔کیونکہ ظہار قرآن کریم کی نص کے مطابق شوہر کی طرف سے ہوتا ہے۔اگر اس طرح کی بات عورت کرتی ہے تو اس میں قسم کا کفارہ ہو گا کہ وہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائے،ہر مسکین کو آدھا صاع طعام (تقریبا سوا کلو) ملنا چاہیے جو علاقے میں معروف ہو۔اگر وہ انہیں دن اور رات کا کھانا کھلا دے یا انہیں لباس دے دے
Flag Counter