Maktaba Wahhabi

479 - 868
تو یہ اسے کافی ہو گا،کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ ۖ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۚ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ (المائدہ:5؍89) "اللہ تعالیٰ تمہاری بے ارادہ قسموں پر تمہارا مواخذہ نہیں کرے گا،لیکن پختہ قسموں پر (جن کے خلاف کرو گے تو) مواخذہ کرے گا،تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے،جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا اس کو کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے۔اور جس کو یہ میسر نہ ہو تو وہ تین روزے رکھے۔یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا لو (اور اسے توڑ دو) اور تم کو چاہیے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔" اور کسی عورت کا اس چیز کو اپنے لیے حرام قرار دینا جو اللہ نے اس کے لیے حلال بنائی ہے،اس کا حکم قسم والا ہے،ایسے ہی اگر کوئی مرد اللہ کی کسی حلال کی ہوئی چیز کو اپنے لیے حرام ٹھہراتا ہے تو اس کا حکم قسم والا ہے سوائے بیوی کے،کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللّٰهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴿١﴾قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ ۚ وَاللّٰهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ﴿٢﴾(التحریم:66؍ 1۔2) "اے نبی اس چیز کو جو اللہ نے آپ کے لیے حلال بنائی ہے،اسے اپنے لیے حرام کیوں ٹھہراتے ہو،(کیا) آپ (اس سے) اپنی بیویوں کی رضامندی چاہتے ہیں ؟اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے۔اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے لیے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کر دیا ہے،وہی تمہارا کارساز ہے اور خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔" البتہ شوہر کا اپنی بیوی کو اپنے لیے حرام کہنا،اس کا حکم علماء کے صحیح تر قول کے مطابق ظہار والا ہوتا ہے،جب اس تحریم میں اس نے فوری یا کسی شرط کے ساتھ معلق کر کے بات کی ہو اور اس تعلیق میں کسی ترغیب و تشویق یا منع کی تصدیق و تکذیب والی بات نہ ہو۔مثلا اگر کوئی یوں کہے کہ تو مجھ پر حرام ہے یا میری بیوی جب رمضان شروع ہو گا تو مجھ پر حرام ہو گی وغیرہ،تو ایسے کلام کا مفہوم اہل علم کے صحیح تر قول کے مطابق یہ ہے گویا اس نے کہا ہو "تو مجھ پر ایسے ہے جیسے میرے لیے میری ماں کی پشت۔" اور اس طرح کی گفتگو انتہائی غلط اور حرام ہے اور جھوٹی بات ہے۔ایسے آدمی کو اللہ کے ہاں توبہ کرنی چاہیے ۔
Flag Counter