Maktaba Wahhabi

536 - 868
اللہ خوب سنتا اور جانتا ہے۔" ایسے لوگوں کا رجوع کے سلسلے میں یہ کہنا کہ "اللہ بخشنے والا مہربان ہے" اور عزم طلاق کے بارے میں کہنا فَإِنَّ اللّٰهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کا عزم طلاق محبوب و مرغوب نہیں ہے۔ اور یہ بھی ہم سب جانتے ہیں کہ طلاق سے عورت کا دل ٹوٹ جاتا ہے،بالخصوص جب بچے بھی ہوں تو خاندان بکھر کے رہ جاتا ہے،اور نکاح کے مقاصد فوت ہو جاتے ہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ طلاق من حیث الاصل ناپسندیدہ عمل ہے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:عورت کب اور کس طرح مطلقہ ہوتی ہے؟ اور طلاق کے مباح کیے جانے کی کیا وجہ ہے؟ جواب:عورت اس وقت طلاق یافتہ سمجھی جاتی ہے جب اس کے شوہر نے بقائمی ہوش و حواس،خود مختار ہوتے ہوئے اپنی بیوی پر طلاق واقع کی ہو،اور مرد جنون یا نشے وغیرہ کی حالت میں نہ ہو جو وقوع طلاق کے لیے مانع ہے۔ اور اگر عورت طہر کے ایام میں ہو اور ان دنوں میں میاں بیوی کا صنفی ملاپ نہ ہوا ہو یا وہ حمل سے ہو یا آیسہ ہو تو اسے طلاق ہو جاتی ہے اور اگر عورت حیض یا نفاس میں ہو،یا ایسے طہر میں ہو جس میں میاں بیوی کا صنفی ملاپ ہو چکا ہو جبکہ وہ حاملہ یا آیسہ نہ ہو،تو علماء کے صحیح تر قول کے مطابق اس پر طلاق واقع نہیں ہو گی،الا یہ کہ شرعی قاضی اس طلاق کے نافذ ہونے کا فیصلہ کر دے تو یہ واقع ہو جائے گی،کیونکہ اجتہادی مسائل میں شرعی قاضی کا فیصلہ اختلاف کو ختم کرنے والا ہوتا ہے۔ اور ایسے ہی اگر شوہر مجنون ہو یا اسے مجبور کر دیا گیا ہو یا کوئی نشہ آور چیز لے کر نشے کی حالت میں ہو،خواہ یہ گناہ ہی سہی،یا مغلوب الغضب ہو،ایسا کہ اس کی سمجھ بوجھ پر پردہ پڑ گیا ہو اور وہ طلاق کے نقصانات سے شعور میں نہ رہا ہو،اور اس کے اسباب بھی واضح ہوں،یہاں تک کہ مطلقہ عورت بھی اس کی تصدیق کرے یا دیگر مختلف گواہیوں سے یہ ثابت ہوا ہو،ایسی صورت میں ایسے آدمی کی طلاق واقع نہیں ہو گی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:"تینوں طرح کے آدمیوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے:چھوٹی عمر والا حتیٰ کہ بالغ ہو جائے،سویا ہوا حتیٰ کہ جاگ جائے اور مجنون حتیٰ کہ صحت مند ہو جائے۔"[1] اور اللہ عزوجل کا فرمان ہے: مَن كَفَرَ بِاللّٰهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ (النحل:16؍106)
Flag Counter