Maktaba Wahhabi

537 - 868
"جس نے ایمان لے آنے کے بعد اللہ سے کفر کیا،سوائے اس کے جسے مجبور کر دیا گیا ہو اس حال میں کہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔" تو جب کفر پر مجبور کیا گیا آدمی،کافر نہیں بن جاتا ہے،بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو،تو طلاق پر مجبور کیا گیا آدمی بالاولیٰ اس درجہ میں ہے کہ اس کی طلاق نافذ نہ ہو۔بشرطیکہ طلاق دینے والے کو اکراہ کے علاوہ کسی اور چیز نے اس پر آمادہ نہ کیا ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "لَا طَلاقَ وَلا عِتَاقَ فِي إِغْلاقٍ" "مجبور کیے جانے میں کوئی طلاق نہیں،کوئی آزاد کرنا نہیں۔"[1] امام احمد رحمہ اللہ اور بہت سے علماء نے اغلاق کا معنی اکراہ اور غضب شدید کیا ہے۔ ایسے ہی حضرت عثمان خلیفہ ثالث رضی اللہ عنہ اور بہت سے علماء نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ بحالت نشہ طلاق نہیں ہوتی جبکہ اس کی عقل زائل ہو چکی ہو۔تاہم اس کے گناہ گار ہونے میں شبہ نہیں ہے۔ طلاق مباح ہونے کی حکمت انتہائی واضح ہے۔ہو سکتا ہے یہ بیوی شوہر کے مناسب حال نہ ہو اور وہ اسے بہت زیادہ ناپسند کرتا ہو،اور اس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں مثلا نادان ہو،دینی حالت کمزور ہو،یا بے ادب ہو وغیرہ تو اللہ نے اس میں وسعت رکھی ہے کہ مراد اسے اپنی عصمت سے نکال دے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَإِن يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللّٰهُ كُلًّا مِّن سَعَتِهِ ۚ (النساء:4؍130) "اگر میاں بیوی میں موافقت نہ ہو سکے اور وہ ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تو اللہ ہر ایک کو اپنی دولت سے غنی کر دے گا۔" (عبدالعزیز بن باز) سوال:ایک آدمی نے اپنی بیوی کو رخصتی سے پہلے ہی تین طلاقیں دے دی ہیں،بیوی کنواری ہے،کیا اس کے لیے اس میں رجوع کرنا ممکن ہے؟ جواب:تین طلاقیں دخول سے پہلے ہوں یا بعد،ائمہ اربعہ کے نزدیک اس سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے۔[2] (امام ابن تیمیہ) سوال:ایک آدمی کا اپنی بیوی سے جھگڑا ہو گیا اور اس نے اسے مارا تو عورت نے کہہ دیا کہ مجھےطلاق دے دو،تو شوہر نے کہا:تو مجھ پر حرام ہے۔تو کیا اس طرح کہنے سے بیوی شوہر کے لیے حرام ہو جائے گی؟ جواب:شوہر کا اپنی بیوی سے یہ کہنا کہ "تو مجھ پر حرام ہے" اس بارے میں علماء کے دو قول ہیں۔ایک یہ کہ شوہر
Flag Counter