Maktaba Wahhabi

558 - 868
گویا معنوی طور پر امر یا نہی کے معنی میں ہوتا ہے۔جو آدمی اپنے اوپر کوئی قسم ڈال لیتا ہے،گویا وہ اپنے آپ کو اس کام کے کرنے سے منع کر رہا ہے۔جیسے کوئی کہے کہ میں فلاں شہر میں داخل نہیں ہوں گا،یا فلاں شخص سے بات نہیں کروں گا کسی خاص سبب کی وجہ سے۔پھر وہ سبب دور ہو جائے تو جس سے اپنے آپ کو روکا تھا وہ زائل ہو گیا۔مثلا ایک آدمی دوسرے کو سلام میں پہل نہیں کرتا،کیونکہ وہ کافر ہے،پھر وہ مسلمان ہو جائے،یا کہے کہ میں شہر میں داخل نہیں ہوں گا،کیونکہ وہ دارالحرب ہے۔پھر وہ دارالسلام بن جائے،وغیرہ مثالوں میں جب کوئی حکم کسی علت کی وجہ سے لازم آ رہا ہو اور پھر وہ علت نہ رہے تو وہ حکم بھی نہیں رہے گا۔ اگر اس آدمی نے قسم اٹھائی تھی کہ وہ بیوی سے سزا کے طور پر ملاپ نہیں کرے گا کیونکہ وہ ٹال مٹول اور سرکشی کا انداز اپناتی تھی،تو جب عورت نے اپنے انداز سے توبہ کر لی اور شوہر کی مطیع فرمان ہو گئی تو وہ سبب زائل ہو گیا جس کی وجہ سے اس نے بیوی سے علیحدہ رہنے کی قسم اٹھائی تھی،جیسے کہ اگر کوئی بیوی کے سرکش ہونے کی وجہ سے علیحدگی کا عزم کر لے،اور پھر یہ سبب نہ رہے (تو حکم بھی نہ رہے گا)۔ لیکن اگر شوہر کی نیت یہ تھی کہ وہ ہمیشہ کے لیے بیوی سے ملاپ نہیں کرے گا اس سبب سے جس کا سوال میں ذکر ہوا ہے،پھر وہ توبہ کر لے یا نہ بھی کرے مگر اسے علم ہو کہ وہ پختہ طور پر توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لے گی،مگر وہ اس کی سابقہ غلطی کی سزا دینا چاہتا ہو،جیسے کہ بعض اوقات آدمی کسی دوسرے کو اس کی غلطی کی سزا دینا چاہتا ہے،اس لیے نہیں کہ وہ آئندہ کے لیے محتاط رہے بلکہ اس غرض سے سزا دینا چاہتا ہے کہ اپنا غصہ ٹھنڈا کرے تو یہ ایک دوسری نوعیت ہے۔واللہ اعلم۔(امام ابن تیمیہ) سوال:ایک شخص نے طلاق کی قسم اٹھا کر کہا کہ وہ چھ ماہ تک اپنی بیوی سے ہم بستری نہیں کرے گا،اور وہ اسے اس سے پہلے دو طلاقیں بھی دے چکا ہے،اور پھر اس کی نیت یہ ہے کہ وہ اس سے مذکورہ مدت پوری ہونے کے بعد ہی ہم بستری کرے گا،تو اگر یہ مدت گزر جائے تو کیا کرے؟ جواب:جب یہ مدت پوری ہو جائے تو وہ بیوی سے ملاپ کر سکتا ہے اور اس پر کچھ نہیں ہے،بشرطیکہ بیوی نے چار ماہ پورے ہونے پر اس سے ملاپ کا مطالبہ نہ کیا ہو۔یہ امام مالک،احمد اور شافعی رحمہم اللہ اور جمہور کا مذہب ہے۔اسے "ایلاء" کہتے ہیں۔(امام ابن تیمیہ) سوال:اس طلاق کا کیا حکم ہے جب شوہر نے بیوی سے کہا ہو کہ اگر تو آج رات گھر واپس نہ لوٹی تو تجھے تین طلاق۔مگر عورت کہتی ہے کہ میں آنا چاہتی تھی مگر بھائی نے مجھے روک لیا۔ جواب:اس مسئلہ،حلف بالطلاق،میں فتویٰ یہی ہے کہ اگر اس کی قسم پوری نہیں ہوتی تو اس کی بیوی کو طلاق ہو جائے گی،جمہور اسی کے قائل ہیں۔ لیکن عورت کا یہ دعویٰ کہ اسے مجبور کر دیا گیا تھا اس لیے وہ نہیں آ سکی،تو اس میں تحقیق کی جانی چاہیے ۔
Flag Counter