Maktaba Wahhabi

70 - 868
اللہ عزوجل کی خلق اور تقدیر کا ایک حصہ ہے۔مثلا:کوئی مصور (تصویر بنانے والا) ناممکن ہے کہ عدم سے کوئی چیز وجود میں لے آئے مگر وہ صرف اسی قدر کر سکتا ہے کہ مٹی سے کسی پرندے یا اونٹ بوغیرہ کی شکل بنا دے،یا سفید کاغذ کو رنگین کر دے۔تو یہ مٹی،کاغذ اور رنگ سب اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔یہی فرق ہے اللہ تعالیٰ اور غیراللہ کو خالق کہنے کا۔خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی خلق و پیدائش میں اکیلا اور منفرد ہے اور یہ اسی کا خاصہ ہے۔[1] دوم:۔۔اللہ عزوجل کا ملک و ملکیت میں اکیلا اور منفرد ہونا،تو وہ اکیلا ہی مالک ہے جیسے کہ فرمایا: تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴿١﴾(الملک 67؍1) "برکت والی وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہے ملک اور وہ ہر ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔" اور فرمایا: قُلْ مَن بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ (المومنون 23؍88) "ان سے پوچھیے کہ کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر ہر چیز کا اختیار ہے،جو پناہ دیتا ہے اس کے خلاف کوئی پناہ نہیں دے سکتا۔" اس کائنات کا اکیلے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی حقیقی مالک نہیں ہے۔اس کے علاوہ کی طرف جو ملک و ملکیت کی نسبت کی جاتی ہے وہ محض اضافی (مجازی اور لفظی) ہے۔جیسے کہ خود اللہ عزوجل نے یہ نسبت دی ہے: أَوْ مَا مَلَكْتُم مَّفَاتِحَهُ (النور 24؍61) "یا ان گھروں سے جن کی کنجیوں کے تم مالک ہو (بلا اجازت کھا سکتے ہو)۔" یا فرمایا: إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ (المومنون 23؍6) "جو (اپنی عصمتوں کی حفاظت کرتے ہیں) ۔۔سوائے اپنی بیویوں سے یا ملکیت کی لونڈیوں سے۔" اس طرح کی بے شمار آیات میں مخلوق کے لیے ملکیت اور ان کے مالک ہونے کا بیان آیا ہے۔مگر مخلوق کی ملکیت اور مالکیت اس انداز کی قطعا نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔مخلوق کی ملکیت ناقص اور محدود ہے۔چنانچہ وہ گھر جو زید کی ملکیت میں ہے عمرو اس کا مالک نہیں ہے،اور جو گھر عمرو کا ہے زید اس کا مالک نہیں ہے۔
Flag Counter