Maktaba Wahhabi

846 - 868
اوربہت سے مواقع پر نوجوان لڑکے لڑکیوں کی یہ خط و کتابت اور ان کا غلط تعارف برے نتائج کا باعث بنا ہے۔(صالح بن فوزان) سوال:میں ایک ہسپتال میں کام کرتا ہوں۔میرے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ ہر وقت اجنبی اور غیر محرم عورتوں کے ساتھ اختلاط اور بات چیت ہوتی رہتی ہے اور غیر محرم عورت سے مصافحہ،بالخصوص رمضان میں،اس کا کیا حکم ہے؟ جواب:عورتوں کے ساتھ اختلاط جائز نہیں،اس کے نتائج بڑے سنگین اور خطرناک ہو سکتے ہیں،بالخصوص جب وہ بے پردہ اور اپنی زینت اور سنگار کو نمایاں کرنے والی بھی ہوں۔اس لیے ضروری ہے کہ آپ اس کام سے الگ ہو جائیں اور کوئی ایسا کام تلاش کریں جس میں اختلاط نہ ہو۔اور بحمداللہ کاروبار بہت سے ہیں۔ اجنبی مرد عورت کا آپس میں مصافحہ حرام ہے،اس میں فتنہ ہے اور صنفی جذبات کو تحریک ملتی ہے۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی اجنبی عورت کا ہاتھ نہیں چھوا تھا۔آپ عورتوں سے زبانی کلامی بیعت لیتے تھے۔[1] (مجلس افتاء) سوال:میری ایک بہن ہسپتال میں نرس ہے۔مریضوں کی تیمار داری اس کا کام ہے۔بعض اوقات آپریشن کرتے ہوئے ڈاکٹر (مرد) کے ساتھ ہاتھ چھو جاتے ہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ جواب:میں سمجھتا ہوں کہ یہ چھونا کام کے دوران میں ہوتا ہو گا،اور بالعموم ڈاکٹر لوگ آپریشن کے دوران میں ربڑ کے دستانے پہنے ہوئے ہوتے ہیں تو یہ چھونا حائل کے ساتھ ہوا۔ لیکن بہرحال میں خیرخواہانہ کہوں گا کہ یہ بہن نرس کا کام چھوڑ کر کوئی اور اختیار کر لے یا اس کا کام صرف خواتین کے ساتھ ہو،کیونکہ اس میں بہت سی شرعی مخالفتیں پیش آتی ہیں۔ اور انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ڈاکٹر حضرات بھی نرسوں کو ہر طرح سے مباح سمجھتے ہیں اور جب چاہیں ان سے خوش طبعی کرتے رہتے ہیں۔اور پھر نرسیں بھی کوئی زیادہ تعلیم یافتہ اور دینی امور سے آگاہ نہیں ہوتی ہیں،اور دوسرے انہوں نے ایک معاہدے کے تحت کام کرنا ہوتا ہے تو نفسیاتی طور پر ڈاکٹر لوگوں کے سامنے اپنے کو ہیچ سمجھتی ہیں اور بعض اوقات یہ ڈاکٹر کے ساتھ رات کی ڈیوٹی میں،ان ہی کے ساتھ رات بھی گزارتی ہیں۔اس طرح یہ بہت سے فتنوں کا نشانہ بنی رہتی ہیں۔لہذا میں عورتوں سے کہوں گا کہ نرسوں کا کام اس صورت میں اختیار کریں جب صرف عورتوں میں موقع ملے۔(محمد بن عبدالمقصود)
Flag Counter