Maktaba Wahhabi

849 - 868
کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ جواب:عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے مواقع پر خوشی کا اظہار کرنا اور کھانے پینے وغیرہ کا خاص اہتمام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (أَيَّامُ التَّشْرِيقِ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ وَذِكْرٍ لِلّٰهِ) "عیدالاضحیٰ کے بعد تین دن ایام تشریق کھانے،پینے اور اللہ کی یاد کے دن ہیں۔"[1] کہ لوگ اس موقع پر قربانیاں کرتے،گوشت کھاتے اور اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔اور یہی حکم عیدالفطر کا ہے،بشرطیکہ شرعی حدود سے تجاوز نہ ہو۔ لیکن ستائیس رجب،پندرہ شعبان اور عاشورہ محرم کے مواقع پر خوشی کا اظہار،اس کی کوئی اصل نہیں ہے،بلکہ منع ہے،مسلمان آدمی کو ان مواقع کی دعوتیں قبول نہیں کرنی چاہییں ۔آپ علیہ السلام کا فرمان ہے:"نئے نئے کاموں سے دور رہو،(دین میں) ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔"[2] ستائیس رجب کے بارے میں کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ معراج کی رات ہے،اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں پر لے جایا گیا تھا۔مگر تاریخی اعتبار سے یہ بات ثابت نہیں ہے اور جو بات ثابت نہ ہو وہ باطل ہوتی ہے،اور جو کام کسی باطل پر مبنی ہو وہ باطل ہوا کرتا ہے۔اگر بالفرض معراج اس رات میں ہوئی بھی ہو تو بھی ہمارے لیے جائز نہ ہو گا کہ اسے بطور عید منانا شروع کر دیں یا اس میں کوئی خاص عبادت شروع کر دیں۔کیونکہ یہ چیزیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ سے ثابت نہیں ہیں۔حالانکہ صحابہ کرام ان اعمال خیر کے زیادہ لائق تھے۔وہ آپ علیہ السلام کی سنت اور آپ کی شریعت کی اتباع کے بڑے ہی شائق تھے۔ہمارے لیے کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اور پھر صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں نہیں ہوا،اسے ہم شروع کر دیں۔ اسی طرح پندرہ شعبان کی رات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ثابت نہیں ہے۔یہ کہ آپ نے بالخصوص اس میں کوئی عبادت کی ہو۔ہاں کچھ تابعین سے نماز اور ذکر کا بیان آتا ہے،نہ کہ کھانے پینے اور عید منانے کا۔ یوم عاشور کے روزے کے متعلق آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا:"یہ گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہوتا
Flag Counter