Maktaba Wahhabi

118 - 645
بصورت ثانی اس کی پناہ حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے کہ جب ابلیس سرے سے کوئی کام ہی انجام نہیں دیتا تو وہ کسی کو پناہ بھی نہیں دے سکتا اور اگر بصورت اول وہ بعض افعال کا مرتکب ہوچکا ہے، تو وہ گناہوں سے منزہ نہیں ہو سکتا، لہٰذا اعتراض دونوں صورتوں میں باطل ہے خواہ تقدیر کا اثبات کیا جائے یا نفی۔ پس معلوم ہوا کہ یہ ایسے انسان کا اعتراض ہے جو دونوں اقوال سے غافل ہے۔ اسی طرح ابلیس کا فعل نہ ہونے کی تقدیر پر ہے کہ اب اس کا کوئی شر نہ ہو گا کہ یہ کہا جائے کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا اس سے زیادہ شریر ہے چہ جائیکہ یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ ابلیس سے زیادہ شر والا ہے۔ لہٰذا اس بات کا دعویٰ کہ:’’ انہیں یہ بات لازم آتی ہے کہ اللہ ان پر ابلیس سے زیادہ شر والا ہو‘‘ ایک باطل دعویٰ ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ یہ جبر محض کاعقیدہ ہے جیسا کہ جھم اور اس کے شیعہ کے بارے میں حکایت نقل کیجاتی ہے ۔اور اس قول کی غایت یہی ہے کہ ابلیس وغیرہ کی کوئی قدرت و مشیئت اور فعل نہیں ہے۔ بلکہ ابلیس کی حرکت ہوا کی حرکت کی طرح ہے۔ اس تقدیر کی بنا پر ابلیس میں نہ خیر ہے اور نہ شر؛ اور اس سب کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ سو اس تقدیر کی بنا پر یہ کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ رب تعالیٰ کی بعض مخلوق اس سے زیادہ شر والی ہے۔ دوسری وجہ:....یہ ہے کہ ابلیس سے پناہ جوئی اس صورت میں مستحسن ہے جب وہ پناہ دینے پر قادر ہو، خواہ اﷲ تعالیٰ کو افعال العباد کا خالق قرار دیا جائے یا نہیں ۔ یہ امر قابل غور ہے کہ اس کتاب کا شیعہ مصنف اور اس کے ہم نوا منکرین تقدیر یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ: ٭ ابلیس وہ کام انجام دیتا ہے، جو اﷲ تعالیٰ نے اس کی تقدیر میں نہیں لکھے۔ ٭ نیز یہ کہ ابلیس بلا ارادہ الٰہی بھی بعض افعال کا مرتکب ہوتا ہے۔ ٭ اور رب تعالیٰ کی بادشاہی میں وہ بھی ہوتا ہے جو اس نے نہیں چاہا۔ ٭ اور یہ کہ رب تعالیٰ ابلیس اور دوسرے زندوں کوحرکت دینے پر قادر نہیں ۔ ٭ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کسی شخص کو نیک عمل سے ہٹا کر برے کام پر نہیں لگا سکتا اور نہ یہ قدرت رکھتا ہے کہ افعال قبیحہ سے ہٹا کر نیک اعمال پر لگا دے۔ ان سب اقوال کے باوجود جو یہ لوگ ابلیس کے لیے ثابت کرتے ہیں نا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے۔ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ابلیس اللہ کے مقابلے میں کسی کو پناہ دینے کی اور کسی کو بچانے کی قدرت نہیں رکھتا۔ اس بنا پر ابلیس سے استعاذہ ممتنع ٹھہرا اور اگر، معاذ اللہ! اس بات کو فرض کر لیا جائے کہ یہ لوگ جو لازم کرتے ہیں کہ مخلوق پر کوئی ابلیس سے بھی زیادہ شر ہو سکتا ہے اور وہ اس کے باوجود رب تعالیٰ کی قضا و قدر کو ہٹا دینے سے عاجز ہے تو پھر شیطان سے بلکہ کسی بھی مخلوق سے پناہ مانگنے والا بے یار و مددگار رہ جائے گا۔ جیسا کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًاo﴾ (الاسراء: ۲۲) ’’اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود مت بنا، ورنہ مذمت کیا ہوا، بے یارومددگار ہوکر بیٹھا رہے گا۔‘‘
Flag Counter