Maktaba Wahhabi

431 - 645
استخلاف میں نہیں ۔ اس استخلاف میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شریک کار دوسرے لوگ بھی ہیں ۔ اسکی وضاحت یہ ہے کہ اللہ کے نبی موسی علیہ السلام جب اپنے رب سے ملاقات کرنے کے لیے تشریف لے گئے تو ان کے ساتھ اس امرمیں کوئی دوسرا شریک نہیں تھا۔ ورنہ حضرت ہارون علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں بنی اسرائیل کے حاکم بنائے گئے تھے۔اس کے برخلاف حضرت علی رضی اللہ عنہ جب مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام قرار پائے تو اکثر لوگ وہاں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رفاقت میں جا چکے تھے سوائے معذوروں [اورمنافقین ]کے۔ اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت محض عورتوں ، بچوں اور ضعیف لوگوں کے لیے باقی رہ گئی تھی۔تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے مدینہ میں نائب بنایا جانا ہر لحاظ سے ایسے نہیں تھا جیسے حضرت ہارون علیہ السلام کو بنی اسرائیل میں نائب بنایا جانا۔ بلکہ آپ کو اپنی عدم موجودگی میں ایسے امین بنایا تھا جیسے ہارون علیہ السلام کوحضرت موسی علیہ السلام نے اپنی عدم موجودگی میں امین بنایا تھا۔تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے لیے واضح کیا کہ نائب بنائے جانے سے مقام ومرتبہ میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔بلکہ اس سے انسان کی امانت داری ظاہر ہوتی ہے۔ جیسا کہ حضرت موسی علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کواپنی قوم پر اپنا نائب بنایا تھا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے روتے ہوئے چل پڑے تھے۔اور عرض گزاری کی تھی کہ : کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑے جارہے ہیں ؟ یعنی آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہنا نا پسند کرتے تھے۔ [امارت مدینہ اور من گھڑت روایت پر رد:] شیعہ مصنف کا قول ’’ اِنَّ الْمَدِیْنَۃَ لَا تَصْلُحُ اِلَّا بِیْ اَوْ بِکَ‘‘ صریح کذب اور موضوع روایت ہے۔[1] احادیث مبارکہ کے کسی بھی معتمدمجموعہ میں اس کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔جس چیز سے اس روایت کا جھوٹا ہونا ظاہر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ کئی بار مدینہ سے باہر کا سفر کرچکے تھے۔اس وقت مدینہ میں نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ ۔ توپھر آپ کیسے یہ فرماسکتے ہیں کہ :’’ میرے اور آپ کے سوا کوئی شخص حاکم مدینہ بننے کا اہل نہیں ہے۔ بدرکے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔بدر اور مدینہ کے مابین کئی مراحل کا فاصلہ ہے۔ان دونوں ہستیوں میں سے کوئی ایک بھی مدینہ میں موجود نہیں تھا۔ بدر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی موجودگی تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔[2]
Flag Counter