Maktaba Wahhabi

479 - 645
ایک گروہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بغض کی وجہ سے یہ الزام [بطور فخر ] لگاتا ہے ‘ اور دوسرا گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض کی وجہ سے یہ الزام [بطور نفرت و اثبات جرم کے]لگاتاہے۔ [یہ دونوں گروہ تعصب کے مریض ہیں ایک فریق حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بے جا طرف داری کا ارتکاب کرتا ہے اور دوسرا حضرت عثمان کا حامی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دشمن ہے]۔ جمہور اہل اسلام ان دونوں فرقوں کو جھوٹا سمجھتے ہیں ۔ روافض کا قول ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ، قتل عثمان رضی اللہ عنہ بلکہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے قتل کو مباح سمجھتے اور ان کو قتل کرنے والے کی تائید و نصرت کو اجر و ثواب کا موجب قرار دیتے تھے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہو وہ یہ بات کیوں کر کہہ سکتا ہے کہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر کیا گناہ ہے ؟ البتہ اہل سنت کے قول کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منزہ قرار دے سکتے ہیں یہ امر اس بات کا آئینہ دار ہے کہ روافض کے یہاں کس قدر تناقض پایا جاتا ہے۔ [انبیاء کرام علیہم السلام کی ازواج پر رافضی الزام]: [نواں اعتراض]: شیعہ مصنف کا قول کہ ’’طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کے لیے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی اعانت و رفاقت کیوں کر جائز ہوئی؟‘‘ بروز قیامت یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے۔ ہماری یہ حالت ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی بیوی کے ساتھ بات چیت کرے۔ اور سفر میں اسے اپنے ہم راہ لے جائے، تو اس عورت کا خاوند اس کا انتہائی دشمن بن جائے گا۔‘‘ [انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب ]: ہم کہتے ہیں کہ: یہ شیعہ کے جہل و تناقض کا بین ثبوت ہے۔اس لیے کہ یہ لوگ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بڑے بڑے الزام لگاتے ہیں ۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر فحاشی کا الزام لگاتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بری قرار دیا ہے ۔اور اس بارے میں قرآن نازل ہواہے[جو قیامت تک پڑھا جائے گا ]۔ ان کی جہالت کا یہ عالم ہے کہ اس قسم کا دعوی دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی ازواج کے متعلق کرتے ہیں ۔ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی ایک غلط کارعورت تھی۔اور جس بیٹے کو نوح علیہ السلام نے کشتی میں سوار ہونے کے لیے بلایا تھا ؛ وہ آپ کا بیٹا نہیں تھا ‘ بلکہ اس بیوی کا تھا[معاذ اللہ ]۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : ﴿اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ ﴾ [ہود ۳۶]’’ اس کے اعمال اچھے نہیں تھے ۔‘‘ سے مراد یہ ہے کہ : یہ بیٹا غلط کام کا نتیجہ ہے۔اور ان میں سے بعض پڑھتے ہیں : ﴿ وَ نَادٰی نُوْحُ نِ ابْنَہٗ ﴾ [ہود۳۲]’’نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو آواز دی ۔‘‘ اور نوح علیہ السلام نے کہا: ﴿ یّٰبُنَیَّ ارْکَبْ مَّعَنَا ﴾’’ اے میرے بیٹے ! ہمارے ساتھ سوار ہو جا۔‘‘ اور یہ بھی عرض کی : ﴿ إِنَّ ابنِی مِنْ أَہلِی﴾’’بیشک میرا بیٹا میرے اہل خانہ میں سے تھا۔‘‘ اللہ اور اس کا رسول کہتے ہیں : وہ آپ کا بیٹا تھا ‘یہ جھوٹے افتراء پرداز اور انبیائے کرام علیہم السلام کو اذیت دینے والے کہتے ہیں : وہ آپ کا بیٹا نہیں تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: ’’ وہ آپ کا بیٹا نہیں ہے؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَہْلِکَ﴾ ’’ وہ آپ کے اہل خانہ میں سے نہیں ۔‘‘
Flag Counter