Maktaba Wahhabi

538 - 645
سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس کے کافر رشتہ دار مکہ میں نہ ہوں ۔جو حالت کفر میں ہی قتل ہوئے ‘ یا اپنی موت مرگئے ۔ تو کیا پھر [ان کا کفر ] ان لوگوں کے اسلام لانے میں کسی رسوائی کا سبب ہوسکتا ہے؟ جو لوگ متاخر الاسلام ہیں جیسے حضرت عکرمہ بن ابو جہل ، صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ یہ بہترین مسلمانوں میں سے تھے ۔[1] ان دونوں کے والد بدر کے موقع پر قتل ہوگئے تھے۔ اورایسے ہی حارث بن ہشام[2] کا بھائی بھی بدر کے موقع پر قتل ہوا ۔ ایسی باتیں سامنے رکھ کر طعن و تشنیع کرنا حقیقت میں تمام اہل ایمان پر طعن و تشنیع ہے۔ [ان پر طعن و تشنیع کرناکسی طرح بھی روا نہیں ہے] کیا کسی کے لیے یہ جائز ہوسکتا ہے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر صرف اس وجہ سے طعن وتشنیع کرے کہ آپ کے چچا ابو لہب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے دشمن تھے۔یا حضرت عباس رضی اللہ عنہ پر طعن کرے کہ ان کا بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن تھا ۔ یا ابو طالب کے کفر کی وجہ سے حضرت علی یا حضرت عباس رضی اللہ عنہما کو طعن دلائے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ یہ طعن صرف وہی لوگ کر رہے ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ؟ رافضی مصنف کے پیش کردہ اشعار خود ہی اپنے من گھڑت ہونے کی شہادت دیتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے صحابی کی شان سے صادر شدہ نہیں ۔اس لیے کہ صحابہ کے ساتھ ان اشعار کی کوئی مناسبت ہی نہیں ۔ رافضی کا یہ کہنا کہ : فتح مکہ کا واقعہ ہجرت مدینہ طیبہ کے آٹھویں سال رمضان میں پیش آیا ۔ یہ درست ہے ۔ [حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کاقبولِ اسلام]: [بارھواں اعتراض]:شیعہ کہتا ہے:’’ اس وقت تک معاویہ اپنے شرک پر قائم تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھاگ رہے تھے۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو مباح الدم قراردیا تھا۔آپ بھاگ کر مکہ چلے گئے۔ جب کوئی جائے پناہ نہ ملی تو مجبوراً بارگاہ نبوی میں حاضر ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف پانچ ماہ قبل اپنے اسلام کا اظہار کیا۔‘‘
Flag Counter