Maktaba Wahhabi

478 - 645
عثمان رضی اللہ عنہ کا قاتل قرار دیا تھا ۔ اس لیے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف صف آراء ہوئے؛ صریح بہتان ہے۔ ان کا مطالبہ صرف یہ تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کی تحویل میں دے دیں ۔ وہ اس حقیقت سے کلیتاً آگاہ تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دامن قتل عثمان رضی اللہ عنہ سے اتنا ہی پاک تھا جتنا کہ خود ان کادامن؛ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ۔ مگر چونکہ قاتلین نے آپ کے پاس پناہ لے لی تھی۔وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ جن قاتلوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاں پناہ لی ہے وہ ان کو تفویض کردیے جائیں ۔ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا دونوں اس پر قادر نہ تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے قبائل ان کی پشت پناہی کر رہے تھے۔ فتنہ کی حقیقت بھی یہی ہے کہ ایک مرتبہ جب وہ بپا ہوجاتا ہے تو عقلاء اس کو فرو کرنے سے قاصر رہتے ہیں ۔ بڑے بڑے اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس فتنہ کی آگ بجھانے اور اسے روکنے سے قاصر رہے ۔فتنوں میں ہمیشہ ایسے ہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَاصَّۃً ﴾ (الانفال) ’’ اس فتنہ سے بچ جاؤ جو صرف ظالموں کو ہی اپنی لپیٹ میں نہیں لے گا۔‘‘ جب فتنہ کا ظہور ہو تا ہے تو وہی شخص اس میں آلودہ ہونے سے محفوظ رہتا ہے جس کو اﷲتعالیٰ بچالے۔ [آٹھواں اعتراض]: شیعہ مصنف کہتا ہے ’’[ قتل عثمان رضی اللہ عنہ کی بنا پر] حضرت علی رضی اللہ عنہ پر کیا جرم عائدہوتا ہے۔‘‘ [ جواب] :[یہ اعتراض شیعہ مصنف] کے تناقض کا آئینہ دار ہے۔ رافضی مصنف اس زعم میں مبتلا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ،قتل عثمان رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھ جنگ و قتال کو مباح تصور کرتے تھے۔ اور یہ قتل آپ کی مساعی کا رہین منت تھا۔ اس لیے کہ شیعان علی اور شیعان عثمان رضی اللہ عنہما میں سے بہت سے لوگ یہ قتل حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ [1]
Flag Counter