Maktaba Wahhabi

122 - 645
دراصل اللہ کا تھپڑ مارنا ہے۔ اسی طرح سوار ہونا، نماز وغیرہ کا ادا کرنا یہ بھی دراصل اسی کا فعل ہے کیونکہ وہ ان سب افعال کا خالق ہے۔ حالانکہ ان سب باتوں کے باطل ہونے کو سب جانتے ہیں ۔[[ اگر کسی چیز کے پیدا کرنے کی بنا پر اس کی نسبت ذات باری کی جانب کی جا سکتی تو ہر فعل کو اﷲ کی جانب منسوب کر دیا جاتا، حالانکہ یہ بداہۃً غلط ہے]]۔بلا شبہ یہ تقدیر کے قائلین کا غلو ہے۔ روایات میں مذکور ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ محصور ہوئے تو بلوائی آپ پر پتھر پھینکنے لگے، حضرت عثمان نے پوچھا تم پتھر کیوں پھینکتے ہو....؟ وہ کہنے لگے ہم پتھر نہیں پھینک رہے ؛بلکہ اﷲ تعالیٰ پھینکتا ہے، آپ نے فرمایا: تم جھوٹ کہتے ہو اگر اﷲ تعالیٰ پتھر پھینکتا تو اس کا نشانہ ہر گز نہ چوکتا مگر تمہارے سب نشانے بیکار ثابت ہورہے ہیں ۔‘‘ یہ منکرین تقدیر کی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر حجت ہے کہ وہ اس بات کے قائل نہ تھے کہ اللہ افعالِ عباد کا خالق ہے۔ جیسا کہ بعض مثبتہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے: ﴿وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی﴾ (الانفال: ۱۷) ’’اور لیکن اللہ نے[تیر] پھینکا۔‘‘ لیکن یہ دونوں فریق ہی خطا پر ہیں ۔ کیونکہ رب تعالیٰ جب کسی بندے میں ایک فعل کو پیدا کرتے ہیں تو لازم نہیں کہ وہ بندے سے درست بھی ہو۔ جیسے کسی جسم میں بو کو پیدا کرنے سے یہ لازم نہیں کہ وہ جو خوش گوار بھی ہو۔ اسی طرح کسی بندے میں آنکھیں اور زبان پیدا کرنے سے یہ لازم نہیں آ جاتا کہ وہ بصیر اور ناطق بھی ہو۔ سو لوگوں میں پائے جانے والے کذب کی استناد ایسی ہی ہے جیسی مخلوقات میں موجود صفاتِ قبیحہ اور احوال مذمومہ کی استناد ہے۔ کہ یہ اس کے فی نفسہ مذموم ہونے کو مقتضی نہیں اور نہ اس بات کو مقتضی ہے کہ وہ ان صفات کے ساتھ متصف بھی ہے۔ البتہ استناد کا لفظ مجمل ہے۔ کیا مخلوق کے عجز کو محض اس لیے اللہ کی طرف منسوب کرنا جائز ہو گا کہ وہ اس عجز کا خالق ہے؟ بلاشبہ یہ دلیل واضح طور پر باطل ہے۔ دوم : ان کی رائے میں اﷲ تعالیٰ یہ جانتے ہوئے دروغ گوئی کی قدرت پیدا کرتا ہے کہ وہ شخص جھوٹ بولے گا۔اسی طرح وہ اس علم کے باوصف ظلم و فحش کی قدرت عطا کرتا ہے، کہ یہ آدمی ظلم و فحش کا مرتکب ہوگا۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہم میں سے جو شخص افعال قبیحہ کے انجام دینے میں کسی کی مدد کرتا ہے، وہ گویا بذات خود ان افعال کا ارتکاب کرتا ہے، بنا بریں ظلم و کذب کی مدد کرنے والے کو ظالم و کاذب قرار دیا جائے گا۔ اور ہمارے لیے گناہ کے کام پر کسی کی مدد کرنا جائز نہیں ۔ اس بات سے خود اللہ نے بھی منع فرمایا ہے۔ سو جو بات اس سے قبیح ہے وہ ہم سے بھی قبیح ہے تو لازم آیا کہ اس پر اس بات کو جائز قرار دیا جائے کہ جب وہ کذب پر اعانت کرتا ہے تو کذب بھی کرتا ہے اور یہ محذور ہے جو ان اہل سنت کو لازم آ رہا ہے۔
Flag Counter