Maktaba Wahhabi

124 - 645
پنجم:....یہ کہا جائے کہ سلف و خلف اہل سنت و الجماعت کا اس بات پر اتفاق ہے اﷲ تعالیٰ کا کلام اس کے ساتھ قائم اور غیر مخلوق ہے۔پھر اختلاف اس امر میں ہے کہ آیا وہ اپنی قدرت و مشیئت کے ساتھ کلام کرتا ہے یا نہیں ؟ اس بارے دو اقوال معروف ہیں ۔ پہلا قول اسلاف اور جمہور کا ہے جبکہ دوسرا قول ابن کلاب اور اس کے متبعین کا ہے۔ ٭ پھر ابن کلاب کے متبعین کا اس میں اختلاف ہے؛ کہ کیا وہ قدیم جو معنوی طور پر اس کی مشئیت اور قدرت سے تعلق نہیں رکھتا ؛ اور وہ بذات خود قائم ہے؛ اور کیاحروف ؛ یا حروف اور اصوات ازلی ہیں ؟اس میں دو قول ہیں ؛ اور ان پر اپنی جگہ پر تفصیل سے گفتگو ہو چکی ہے۔ پس جب معاملہ ایسے ہی ہے تو پھر جس نے یہ کہا کہ وہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے نہیں ہے تو یہ بات بھی ممتنع ٹھہری کہ کوئی دوسرا اس کے ساتھ قائم ہو؛ جس کے ساتھ وہ متصف ہے۔ اب ان کے نزدیک صدق ایک علم ہے یا ایسا معنی ہے جو علم کو مستلزم ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ علم اس کی ذات کے لوازم میں سے ہے اور علم کے لوازم اس کی ذات کے لوازم میں سے ہوئے لہٰذا صدق اس کی ذات کے لوازم میں سے ہوا۔ تب پھر اس کا اپنی نقیض کے ساتھ متصف ہونا ممتنع ہوا۔ کیونکہ لازم کا عدم ملزوم کے عدم کو مقتضی ہے۔دروغ گوئی، بہرے پن اور گونگے پن کی طرح ایک عیب ہے۔ اﷲتعالیٰ بلاشبہ گونگے اور بہرے لوگوں کو پیدا تو کرتا ہے، مگر بذات خود اس میں یہ عیب نہیں پایا جاتا۔ بعینہ اسی طرح وہ کاذب میں کذب کو تو پیداکرتا ہے، مگر خود دروغ گوئی کا ارتکاب نہیں کرتا۔ تو یہ بھی واجب ٹھہرا کہ وہ صدق کے ساتھ کذب کے بغیر متصف ہو۔[1] رہا یہ کہنا کہ کلام اس کی قدرت و مشیئت کے متعلق ہے۔ تو ان کے اکثر یہ کہتے ہیں کہ وہ کسی حکمت سے کلام اور فعل کرتا ہے اور وہ فعل قبیح سے منزہ ہے اور ان لوگوں کے رب تعالیٰ کو فعل قبیح سے منزہ قرار دینے کے دلائل معتزلہ کے دلائل سے زیادہ قوی اور عظیم ترہیں ۔ کیونکہ ہر وہ دلیل جو اس بات پر دلالت کرے کہ وہ ہر قبیح فعل سے منزہ ہے اور وہ فعل اس کی ذات سے منفصل ہے۔ تو وہ دلیل اس بات پر بدرجہ اولیٰ دلالت کرتی ہے کہ وہ ایسے ہر فعل قبیح سے منزہ ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہو۔ کیونکہ اس کی ذات کے ساتھ قائم قبائح کا نقص ہونا، اس کی ذات سے منفصل قبیح افعال کے نقص ہونے سے زیادہ ظاہر ہے۔ ت وجب یہ ممتنع ہوا تو وہ تو بدرجہ اولیٰ ممتنع ہوا۔ ششم :....دلائل عقلیہ بھی یہی بتلاتے ہیں کہ رب تعالیٰ کی ذات کا نقائص و قبائح کے ساتھ متصف ہونا ممتنع ہے اور یہ کہ وہ جس بات کے ساتھ بھی متصف ہے، وہ اس کی ذات کے ساتھ قائم بھی ہے۔ اب کلام متکلم کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ لہٰذا رب تعالیٰ کا کذب کے ساتھ تکلم ممتنع ہوا۔ کیونکہ اس کا کلام اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور یہ بات ممتنع ہے
Flag Counter