Maktaba Wahhabi

128 - 645
حالانکہ تمام مسلمانوں کا اجماع ہے؛ اور ان کے دین میں یہ بات بدیہی اور اضطراری طور پر معلوم شدہ ہے کہ اﷲتعالیٰ نے سرقہ کا حکم نہیں دیا۔اب جوکوئی اس بات کا قائل ہے کہ جو واقع ہو وہ مراد ہوتا ہے تو وہ یہ کہہ رہا ہے کہ یہ مراد ہے پر مامور بہ نہیں ۔اورجو شخص اس کا قائل ہے کہ چوری مراد اور مامور ہے؛ اس کا کفر کسی شک و شبہ سے بالا ہے۔ لیکن یہ بات کبھی کبھی ان اباحیت پسندوں اور قدر کی آڑ میں گناہوں پر دلیل پکڑنے والوں کو کہی جاتی ہے کیونکہ ان میں سے کوئی اس بات کا قائل نہیں ہوتا کہ وہ انسان کا اس گناہ میں معارضہ کرے جو اس کے نزدیک اس کے مقدر میں ہے؛ اورجو کوئی اس بات کا قائل ہے کہ وہ اس پر معاونت کرے؛ کیونکہ اس کے گمان میں یہ رب تعالیٰ کی مراد ہے اور اگرچہ یہ فعل حرام اور معصیت ہے لیکن وہ رب تعالیٰ کی مرا دسے نہیں روکتے۔ سو معلوم ہوا کہ کسی بھی لحاظ سے مراد الٰہی سے روکناممکن نہیں ۔ دوم:....یہ کہا جائے کہ گزشتہ میں یہ بات ذکر کی جا چکی ہے کہ معاصی، قبائح اور ظلم سے روکنا، ظالم سے دفاع کرنا، اس سے مظلوم کا حق لینا اور ظلم پر تقدیر کو حجت بنانے والوں پر رد کرنا لوگوں کی فطرتوں میں جاگزیں ہے باوجود یہ کہ وہ تقدیر کو بھی مانتے ہیں اور یہ کہ اگر لوگ جو چاہے برائی کریں اور اس پر تقدیر کی پناہ لینے لگ جائیں کہ نظامِ زندگی درہم برہم ہو جائے۔ یہ گناہوں پر تقدیر کو آڑ بنانے والے یہود و نصاریٰ سے بھی بدتر ہیں حالانکہ وہ منکرین تقدیر سے بھی برے ہیں ۔ سوم:....علاوہ ازیں اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ بندہ کی تقدیر میں بعض باتیں ایسی مقدرہوتی ہیں جن کا دور کرنا ایک امر مستحسن ہوتاہے۔جیسے مرض وغیرہ کہ یہ بالاتفاق رب تعالیٰ کا فعل اور اس کی مراد ہے۔ لیکن اس باوجود روادارو اور حزم و احتیاط کر کے اس کا دفعیہ مستحسن ہے۔ حالانکہ یہ مراد الٰہی کو دور کرنا ہے۔ پھر اگر یہ کہا جائے کہ سارق کا قطع مرادِ الٰہی کو روکنا ہے تو مرض میں دوا پینا بھی اسی قبیل میں سے ہے۔ اسی طرح سیلابوں کی روک تھام، آگ بجھانا، گرتی دیوار کو سیدھا کرنا جیسا کہ جنابِ خضر علیہ السلام نے کیا تھا۔ کھا پی کر بھوک مٹانا، سردی گرمی کو دور کرنا، دھوپ میں سایہ لینا وغیرہ بھی اسی قبیل میں سے ہو گا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ: ’’اے اللہ کے رسول! ذرا بتلائیے کہ یہ جو ہم دوائیوں سے مرض کا علاج کرتے ہیں اور دم کرتے ہیں اور بچاؤ کے اسباب اختیار کرتے ہیں کیا یہ رب تعالیٰ کی تقدیر کو ٹالتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بھی تقدیر میں سے ہیں ۔‘‘[1] سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرما دیا کہ خود رب کی تقدیر سے اس کی تقدیر کو ہٹا سکتے ہیں ۔ یا دفع کر کے یا اٹھا کے۔ دفع کر کے اس کو جس کے وجود کا سبب منعقد ہو گیا ہو اور رفع کر کے اس کو جو موجود ہو۔ جیسا کہ مرض۔ اسی معنیٰ میں یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَ مِنْ خَلْفِہٖ یَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ﴾ (الرعد: ۱۱)
Flag Counter