Maktaba Wahhabi

131 - 645
پہلے فاعل اور ارادہ کنندہ نہ تھا بعد میں اس وصف سے بہرہ ور ہوا۔ بنابریں اس کا ایک امر حادث ہونا اظہر من الشمس ہے، اب دو ہی صورتیں ہیں : ۱۔اس کا کوئی محدث ہوگا۔ ۲۔دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی اس کا محدث نہیں ۔ بصورت ثانی حوادث کا ظہور بلا کسی محدث کے لازم آتا ہے۔ بصورت اول وہ محدث یا تو بندہ خود ہوگا، یا ذات باری تعالیٰ۔یا دونوں کے علاوہ کوئی ہو گا۔ اگر بندہ کو محدث قرار دیا جائے تو پھر اس کا اور بھی کوئی محدث ہوگا، جس کا نتیجہ تسلسل کی صورت میں رونما ہوگا، جو کہ بالاتفاق باطل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بندہ عدم سے وجود میں آیاہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ ایسے حوادث کا قیام ممکن نہیں جن کا نقطۂ آغاز معلوم نہ ہو۔ اور اگر اس کا محدث غیر اللہ ہے تو اس میں بھی وہی قول ہے جو بندے میں ہے۔ تب پھر یہ بات متعین ہو گئی کہ وہ رب ہے جو خالق ہو۔ کیونکہ بندہ فاعل ومرید ہے اور وہ مطلوب ہے۔ مندرجہ بالا بیان سے یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ بندے کا مرید و فاعل ہونا ذات باری تعالیٰ کا رہین منت ہے، اسی لیے اہل سنت کہتے ہیں کہ:’’ بندہ فاعل ہے اور اﷲ نے اسے فاعل بنایا ہے، بندہ صاحب ارادہ ہے اور اﷲ نے اسے صاحب ارادہ بنایاہے۔اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اِِنَّ ہٰذِہٖ تَذْکِرَۃٌ فَمَنْ شَآئَ اتَّخَذَ اِِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًاo وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ﴾ (الانسان: ۲۹۔ ۳۰) ’’یقیناً یہ ایک نصیحت ہے، تو جو چاہے اپنے رب کی طرف (جانے والا) راستہ اختیار کرلے۔ اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿لِمَنْ شَآئَ مِنْکُمْ اَنْ یَّسْتَقِیْمَo وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِِلَّا اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَo﴾ (التکویر: ۲۸۔ ۲۹) ’’اس کے لیے جو تم میں سے چاہے کہ سیدھا چلے ۔ اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے ، جو سب جہانوں کا رب ہے۔‘‘ ان آیات میں رب تعالیٰ نے بندے کی مشیئت کو ثابت کیا ہے اور اس مشیئت کو ایسا بنایا ہے کہ وہ رب تعالیٰ کی مشیئت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ چنانچہ جنابِ ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں : ﴿رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ﴾ (ابراہیم: ۳۰) ’’اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی۔‘‘ اور فرمایا:
Flag Counter