Maktaba Wahhabi

143 - 645
سو اللہ نے جو بھی پیدا کیا ہے، وہ اسی طرح پر ہے کہ جو اس نے چاہا وہ ہوا اور رب تعالیٰ کی مشیئت و قدرت سے اس کا وجود واجب ہوا اور جو اس نے نہ چاہا وہ نہ ہوا اور رب تعالیٰ کی عدمِ مشیئت کی وجہ سے اس کا وجود ممتنع ہوا۔ ساتھ یہ کہ اس نے جو چاہا، وہ اس کی مخلوق، محدث اور مفعول ہے اور اس کے پیدا کرنے سے پہلے اس کا وجود اور عدم دونوں ممکن تھے۔ لیکن جب وہ اللہ کی قدرت و مشئیت سے موجود ہو گیا تو اب اس کا معدوم ہونا ممتنع ٹھہرا۔ البتہ موجود ہونے کے بعد اس کا معدوم ہونا ممکن ہے۔ ایسی کوئی شے نہیں کہ ایک ہی وقت میں اس کا وجود اور عدم دونوں ممکن ہوں ۔ بلکہ عدم کے بدلے وجود اور وجود کے بدلے عدم ممکن ہے۔ سو جب وہ موجود ہے تو اس کا وجود جب تک وہ موجود ہے واجب بغیرہ ہے۔ جب اسے بایں معنی ممکن کہا گیا کہ یہ مخلوق، محدث اور مفعول ہے تو یہ صحیح ہے۔ نہ کہ یہ معنی ہو کہ اس کے وجود کے وقت اس کا عدم اس کے وجود کے ہوتے ہوئے ممکن ہے۔ کیونکہ جب یہ مراد لیا جائے گا کہ وجود کے وقت اس کاعدم وجود کے ہوتے ہوئے ممکن ہے تو یہ قول باطل ہے کہ یہ نقیضین کو جمع کرنا ہے۔ اگر اس کی مراد یہ ہے کہ اس کا عدم اس وجود کے بعد ممکن ہے تو یہ صحیح ہے لیکن یہ اس بات کا مناقض نہیں ہے کہ اس کے وجود کا وجوب بغیرہ اس وقت تک ہے جب تک وہ موجود ہے اور یہ قادر کے ذریعے موجود ہے ناکہ بنفسہٖ موجود ہے اور وہ اس حال میں بایں معنی ممکن ہے کہ وہ محدث، مخلوق اور رب کا محتاج ہے۔ نہ کہ بایں معنی کہ اس کا وجود کے حال میں معدوم ہونا ممکن ہے۔سو جس نے یہ بات سمجھ لی اس پر سے بے شمار وہ اشکال ات کافور ہو جائیں گے جو لوگوں کو قدر کے باب میں پیش آتے ہیں ۔ بلکہ رب تعالیٰ کے قادر مختار ہونے میں بھی اشکال ات جاتے رہیں گے کہ جو اس نے چاہا وہ ہوا اور جو نہ چاہا وہ نہ ہوا۔ اسی لیے اشعری وغیرہ نے رب تعالیٰ کی سب سے بڑی صفت ادر علی الاختراع ہونے کی بیان کی ہے پھر یہ کہ قائل کا قول کہ قادر وہ ہے کہ جو جب چاہے فعل کرے اور جب چاہے ترک کرے، اس معنی میں ہے کہ فعل اور ترک سے قبل دوسرے زمانے میں اگر اس نے اس میں فعل کے وجود کو چاہا یا اس کے ترک کو چاہا تو اس کو دونوں میں اختیار ہو گا۔ تب پھر فعل کے وجوب کے حال میں فعل واجب ہو گا اور تخییر کے زمانے میں کہ جب فعل اور ترک دونوں میں تخییر ہو، واجب نہ ہو گا، اور فعل کے وجوب کے وقت وہ مخیر نہ ہو گا۔ جی ہاں ! کبھی فعل کے حال میں وہ فعل کے بعد ترک کو چاہنے والا ہوتا ہے اور یہ دوسرا ترک ہے اور یہ فعل کے وجود کے حال میں اس کا ترک نہیں ۔ سو قادر کبھی بھی دو چیزوں کے درمیان ان میں سے ایک کے وجود کے حال میں مخیر نہیں ہوتا۔ مگر دوسرے زمانے میں تخییر کے معنی میں ۔ وگرنہ دونوں میں سے ایک کے وجود کے حال میں وہ عدم اور وجود کے درمیان مخیر نہیں ہوتا۔ لہٰذا جب تک ایک فاعل فاعل ہے، وہ تارک نہیں ہے اور نہ اسے ترک پر مقدور ہے، کیونکہ ممتنع مقدور نہیں ہوا کرتا اور ضدین پر قدرت یہ دونوں پر علی سبیل البدل ہو گی نہ کہ دونوں کے جمع پر اور یہ اس کہنے کی طرح ہے وہ کپڑے کو سفید اور سیاہ کرنے پر اور مشرق اور مغرب میں سفر کرنے پر، دائیں بائیں جانے پر اور دونوں بہنوں کو بیک
Flag Counter