Maktaba Wahhabi

156 - 645
پھر یہ کہنا کیوں کر درست ہے کہ اﷲتعالیٰ قدرت و ارادہ کے بغیر ترجیح دینے والا ہے؟ اگر شیعہ مضمون نگار کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ارادہ مع القدرت کے پائے جانے کی صورت میں نتیجہ کا ظہور ایک لابدی امر ہے تو یہ ایک حق بات ہے اور سب اہل اسلام اس کے قائل ہیں ،اور کوئی اس کا نام موجب بالذات رکھ دیتا ہے تو یہ نزاعِ لفظی ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ اﷲتعالیٰ جس چیز کو عالم وجود میں لانا چاہتے ہیں وہ اس کی قدرت و مشیت کے مطابق ظہور پذیر ہوجاتی ہے۔ بعینہٖ اسی طرح جس چیز کا وجود ذات باری کو پسند نہیں ہوتا وہ اس کی مشیت و قدرت کے نہ ہونے کی بنا پر عالم وجود میں نہیں آتی۔ پہلی قسم مشیت ایزدی کے باعث واجب اور دوسری عدم مشیت کی وجہ سے ممتنع ہوتی ہے۔ قدریہ کا یہ قول کہ اﷲتعالیٰ بعض اشیاء کو چاہتے ہیں مگر وہ وجود پذیر نہیں ہوتیں اور بعض اشیاء اس کی مشیت کے بغیر ظہور میں آجاتی ہیں ،[ صریح ضلالت کا آئینہ دار ہے] اہل سنت اس پر انکار کرتے ہیں ۔ چہارم :....کہ وہ پاک ذات قادر ہے۔ اﷲتعالیٰ جب کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتے ہیں تو وہ دو حال سے خالی نہیں : ۱۔اس کا وجود میں آنا واجب ہو۔ ۲۔دوسرا یہ کہ اس کا ظہور پذیر ہونا واجب نہ ہو۔ بصورت اول مطلوب حاصل ہو گیا اور مرجّح کے ہوتے ہوئے اثرونتیجہ بھی رونما ہو گیا، خواہ اس کا نام موجب بالذات رکھا جائے، یا کچھ اور۔ بصورت ثانی اس چیز کا وجود واجب نہیں ۔ لہٰذا وہ ممکن ہوئی جس کا وجود و عدم مساوی ہے اور جس کے لیے کسی مرجّح کا ہونا از بس ضروری ہے، علی ہذا القیاس۔ ایسا ہی ہر اس امر میں ہو گا جو وجود کو قبول کرنے والا ہو اور اس کا وجود واجب نہ ہو گا تو اس کا وجود ممکن اور عدم اور وجود دونوں کا احتمال رکھتا ہو گا اور ایسا تب ہی حاصل ہو گا جب مرجح تام حاصل ہو جو اس کے وجود کو موجب بالذات ہو۔ سو ظاہ ہوا کہ جو بھی پایا گیا، اس کا وجود اللہ کی قدرت و مشیئت سے واجب ہوا اور یہی مطلوب ہے اور یہ معتزلہ کی ایک جماعت کا قول ہے جیسے ابوالحسین بصری وغیرہ۔ اور قدریہ کی ایک جماعت اس باب میں یہ کہتی ہے کہ مرجح کے وجود کے وقت فعل کا وجود اولیٰ ہے۔ البتہ یہ اولویت وجوب تک نہیں جاتی۔ جیسا کہ محمود خوارزمی اور زمحشری وغیرہ کا قول ہے جوکہ باطل ہے۔ کیونکہ جب یہ اولویت وجوب کی حد تک نہیں پہنچتی تو یہ ممکن ہوا جو مرجح کا محتاج ہوتا ہے۔ سو یا تو واجب ہے یا ممکن ہے، اور ممکن عدم و وجود دونوں کو قبول کرتا ہے۔ پھر قدریہ اور جہمیہ کی ایک تیسری جماعت بھی ہے یہ ابوالحسین وغیرہ کے متکلمین اصحاب ہیں ؛ اور ائمہ اربعہ کے اصحاب اور شیعہ وغیرہ ہیں ۔ یہ کہتے ہیں : قادر مرجح کے بغیر ترجیح دیتا ہے۔ ان کے نزدیک ارادہ بلامرجح کے حادث ہے۔ یہ لوگ اللہ کے ارادہ کو حادث قرار دیتے ہیں جو کسی محل میں نہیں ہوتا اور اس ارادہ کے ساتھ فعل کو ممکن ٹھہراتے ہیں نہ کہ واجب۔ یہ ان کے ان اصولوں میں سے ہے جن میں یہ لوگ اللہ کے فعل اور حدوث عالم، فعل عبد اور قدر کے مسئلہ میں شدید اضطراب کا شکار ہیں ۔
Flag Counter