Maktaba Wahhabi

196 - 645
’’اور اگر زمین بھر کے درخت قلمیں ہوں اور سمندر اس کی سیاہی ہو، جس کے بعد سات سمندر اور ہوں تو بھی اللہ تعالیٰ کی باتیں ختم نہ ہوں گی، یقیناً اللہ تعالیٰ سب پر غالب، کمال حکمت والاہے۔‘‘ بہت سارے علماء کرام نے فرمایا: ’’بیشک اس جیسے کلام سے مراد اس امر پر دلالت ہوتی ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ کا کلام نہ ختم ہوسکتا ہے اور نہ ہی مٹ سکتا ہے؛ بلکہ اس کی کوئی انتہاء نہیں ہوتی۔ اور جس نے یہ کہاکہ: بیشک اللہ تعالیٰ اپنی مشئیت اور قدرت سے ایسا کلام کرتا ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہو؛ وہ یہ بھی کہتے ہیں : بیشک اس کلام کی مستقبل میں کوئی انتہاء نہیں ہے۔ جب کہ ماضی کے متعلق ان کے دو قول ہیں : ان میں سے بعض کہتے ہیں : ماضی میں اس کی ابتداء ہوتی ہے۔ اور ان کے ائمہ کہتے ہیں : ماضی میں اس کی کوئی ابتداء ایسے ہی نہیں ہے جیسے مستقبل میں اس کی کوئی انتہاء نہیں ہے۔ اور یہ قول ایسے کلمات کو مستلزم ہے جس کی ازل اور ابد میں کوئی انتہاء نہیں ہے۔ کلام صفتِ کمال ہے اور اپنی مشیئت و قدرت کے ساتھ کلام کرنے والا اس سے زیادہ کامل ہے جو اپنی مشیئت و قدرت سے کلام نہیں کرتا۔ بلکہ متکلم تو ہوتا ہی وہ ہے جو اپنی قدرت و مشیئت سے کلام کرے۔بلکہ اس کے بغیر کسی متکلم کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔اور کلام اس وقت تک صفت کمال نہیں ہوسکتا جب تک وہ متکلم کے ساتھ قائم نہ ہو۔اور رہ گئے وہ امور جو ذات سے منفصل ہیں ؛ تووہ کسی بھی صورت میں صفت نہیں بن سکتے۔ کجا کہ وہ صفت کمال یا نقص ہوں ۔ کہتے ہیں : سلف صالحین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ اور ان کے علاوہ دیگر ائمہ مسلمین میں سے کسی ایک کے متعلق بھی معلوم نہیں ہوسکا جو اس اصول کا انکار کرتا ہو۔ اور نہ ہی کسی نے یہ کہا ہے کہ: ایسے کلمات کا وجود ممتنع ہے جن کی ماضی اورمستقبل [ ازل اور ابد] میں کوئی انتہا ہی نہ ہو۔اور نہ ہی کسی نے اس سے امتناع کے لزوم کا کہا ہے۔ بیشک ایسا کہنے والے کچھ متکلمین مبتدعین ہیں جو سلف اور ائمہ اہل سنت کے ہاں مذموم ہیں ۔جنہوں نے اسلام میں اللہ تعالیٰ کی صفات ؛ اس کے اپنی مخلوق پر علو[بلندہونے ]اور آخرت میں دیدا رکے انکار کا عقیدہ ایجاد کیا۔اور وہ کہنے لگے: ’’بیشک اللہ تعالیٰ کلام نہیں کرتا۔‘‘اورپھر کہنے لگے: وہ کلام تو کرتا ہے مگر اس کا کلام مخلوق اور اللہ تعالیٰ سے جدا ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں : بیشک ہم یہ بات اس لیے کہتے ہیں کہ ہم نے حدوث عالم پر حدوث اجسام سے استدلال کیا ہے؛ اوراجسام کے حدوث پر ان حوادث سے استدلال کیا ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہوتے ہیں ۔ اورجو چیز حوادث سے جدا نہ ہو وہ بھی حادث ہی ہوتی ہے؛ اس لیے کہ حوادث کا بلا ابتداء ہونا ممتنع ہے ۔ اور اگر ہم کہیں کہ: صفات اورکلام اس کے ساتھ قائم ہوتے ہیں ؛ تو پھر حوادث کا اس ساتھ قیام لازم آتا ہے۔ اس لیے کہ یہ تمام اعراض حوادث ہیں ۔ پس اہل سنت ان کو جواب میں کہتے ہیں : ’’بیشک تم بدعات ایجاد کرکے یہ گمان کرتے ہو تم اسلام کی نصرت کر رہے ہو؛ حالانکہ نہ ہی تم نے اسلام کی نصرت کی اور نہ ہی دشمن کو نیچا دیکھایا۔ بلکہ تم اہل عقل و شرع کو اپنے اوپر مسلط کردیا؛ وہ لوگ جو کہ مرسلین علیہم السلام کی نصوص کے علماء تھے؛ وہ جانتے تھے کہ تم ان کی مخالفت کر رہے ہو؛ اور بیشک تم گمراہ اور بدعت
Flag Counter