Maktaba Wahhabi

226 - 645
یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ مجتہدین کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سمجھنے میں اختلاف ہوسکتا ہے ؛ مگر ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی گنہگار نہیں ہوتا۔ آٹھویں وجہ :....اس پر مزید یہ کہ اہل سنت نے یہ کبھی نہیں کہا کہ ائمہ اربعہ کا اجماع ایک بے خطا دلیل ہے۔ اورنہ ہی کسی نے یہ کہا ہے کہ: حق ان کے اقوال کے دائرہ میں محدود و محصور ہو کر رہ گیا ہے؛ جو بات ان سے خارج ہے وہ باطل ہے۔[1] بلکہ اگر ان ائمہ کے متبعین کے علاوہ کوئی دوسرا جیسا کہ سفیان الثوری؛ اوزاعی؛ لیث ؛ سعد اور ان سے پہلے یا ان کے بعد والے مجتہدین اگرکو ئی ایسی بات کہیں جو ان ائمہ اربعہ کے اقوال کے خلاف ہو‘تو اس معاملہ کو کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کیا جائے گا۔ اور ان میں سے راجح قول وہی تصور ہوگا جس پر دلیل قائم ہوگی۔ نویں وجہ :....شیعہ کا قول کہ:’’ صحابہ کرام نے صراحت کے ساتھ قیاس ترک کرنے کاحکم دیا ہے ۔‘‘ [جواب] : [شیعہ سے کہا جائے گا کہ ] : جمہور مسلمین جو قیاس کو حجت مانتے ہیں ؛وہ کہتے ہیں : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قیاس ور ائے اور اجتہاد بھی ثابت ہے ۔ انہوں نے اجتہاد و قیاس کیا۔ اور ان سے قیاس کی مذمت بھی ثابت ہے ۔ [قیاس و رائے کے موافق و مخالف دونوں قسم کے اقوال منقول ہیں ]۔ قیاس مذموم وہ ہے جو نص کا معارض ہو؛جیسے ان لوگوں کا قیاس ہے جو کہتے ہیں کہ سود بھی تجارت کی طرح ہے ۔ اور ابلیس مردود کا قیاس جب اس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کے حکم ِ الٰہی پر اعتراض کیا تھا۔ اور مشرکین کا قیاس جو کہتے ہیں : کیا جسے تم قتل کرتے ہو‘اس کا گوشت کھا لیتے ہو‘ اور جس کو اللہ ماردیتا ہے اس کاگوشت نہیں کھاتے ؟ اللہ تعالیٰ[ایسے باطل قیاس کرنے والے لوگوں کے بارے میں ] فرماتے ہیں : ﴿وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِہِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ﴾ (الانعام:۱۲۱) ’’اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کی طرف وحی کرتے ہیں تاکہ یہ تم سے جھگڑا کریں ؛اور اگر تم ان لوگوں کی اطاعت کرنے لگو تو یقیناً تم مشرک ہو جا ؤگے۔‘‘ ایسے ہی وہ قیاس بھی ہے جس میں فرع مدار حکم میں اصل کی شریک نہ ہو۔ ایسے قیاس کا فاسد ہونا کسی شک و شبہ سے بالا ہے۔[ مگر اس کا مطلب یہ نہ سمجھا جائے کہ قیاس کوئی بھی ہو فاسد ہوتا ہے]۔وہ قیاس فاسد ہوتاہے جس میں شرطیں نہ پائی جائیں ‘اور وہ اصل مدار حکم میں مساوی نہ ہو۔ ایسا کسی مانع کی موجودگی کی وجہ سے ہوتاہے؛ اور یہ مانع وہ نص ہوسکتی ہے جس کو قیاس پر مقدم کرنا واجب ہوتا ہے ۔ اگردونوں نفس ِ امر میں متلازم ہوں ‘ تو شرط کبھی بھی فوت نہیں ہوسکتی مگر وہاں پر کسی مانع کے موجود ہونے کی وجہ سے ۔ اور جب بھی کوئی مانع پایا جاتا ہے تو شرط مفقود ہوجاتی ہے۔ پس رہ گیا وہ قیاس جس میں مدار حکم میں اصل اور فرع دونوں برابر ہوں ‘ اور ان کے ساتھ اس سے راجح کوئی
Flag Counter