Maktaba Wahhabi

251 - 645
کرامیہ اپنے مخصوص عقیدہ میں باقی تمام لوگوں سے جدا ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ : ایمان صرف زبان سے اقرار کا نام ہے۔ پس جو کوئی اپنی زبان سے اقرار کرے وہ مؤمن ہوجاتا ہے۔اگرچہ وہ اپنے دل سے اس کو نہ بھی مانتا ہو۔ پس ایسا انسان مؤمن ہوگا لیکن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔ یہ بات کرامیہ کے علاوہ کسی نے نہیں کہی ۔ بلکہ اہل سنت والجماعت کے مشہور اہل علم گروہوں میں سے ہر ایک گروہ کے کچھ ایسے اقوال بھی ہیں جن پر دوسرے گروہ کسی طرح بھی ان کی موافقت نہیں کرتے ۔ امام ابو حنیفہ ؛ امام مالک ‘ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ میں ہر ایک کے کوئی ایسے منفرد مسائل ہیں جن میں وہ دوسرے تینوں ائمہ سے جدا ہے ۔ اگر شیعہ مصنف کی مراد یہ ہو کہ : امامیہ اپنے تمام مسائل میں باقی فرقوں سے جدا ہیں ؛ تو ایسا کہنا صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ امامیہ توحید میں معتزلہ کے ہم نوا اورموافق ہیں ۔ ان کے پرانے لوگ مجسمہ کے عقیدہ پر تھے۔ایسے ہی تقدیر کے مسائل میں بھی امامیہ معتزلہ سے موافقت رکھتے ہیں ۔ ان کے پرانے لوگوں میں سے بہت سارے تقدیر کونہیں مانتے تھے۔ان کے قدماء میں انکار تقدیر کا مسئلہ انکار صفات ربانی سے زیادہ مشہور تھا۔ ایسے ہی جہنمیوں کو جہنم سے نکالے جانے اور اہل کبائر کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے معافی اور مغفرت کے بارے میں ان کے دو قول ہیں ۔ ان کے متاخرین اس مسئلہ میں وقفیہ کی موافقت رکھتے ہیں ۔ وقفیہ کہتے ہیں : ہمیں پتہ نہیں کیا اہل قبلہ میں سے کوئی ایک جہنم میں داخل ہوگا یا نہیں ؟ وقفیہ اصل میں اشعریہ کا ایک گروہ ہیں ۔ اگرچہ وہ یہ بھی کہتے ہیں : ہم یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ بہت سارے اہل کبائر جہنم میں داخل ہوں گے ۔ جیسا کہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔ جملہ طور پر ان کے کچھ خاص اقوال و عقائد ہیں ۔اور کچھ ایسے اقوال ہیں جن میں دوسرے لوگ ان کے ساتھ شریک ہیں ۔ یہی حال معتزلہ اور خوارج کا بھی ہے ۔ جب کہ اہل حدیث اہل سنت و الجماعت ان کی خصوصیت کتاب و سنت کی اتباع اور اصول وفروع میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقہ کار کی اتباع ہے۔ بخلاف خوارج ‘ معتزلہ اور روافض کے۔جو کوئی بعض اقوال میں ان کی اتباع کرے گا ؛ اسے یاد رکھنا چاہیے کہ یہ فرقے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثقہ راویوں کی اسناد سے ثابت شدہ احادیث پر عمل نہیں کرتے ۔ معتزلہ کہتے ہیں : یہ اخبار احاد ہیں ۔رافضہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پراور ان سے روایات نقل کرنے والے علماء پر طعن کرتے ہیں ۔ اس سے مقصود باطنی طور پر رسالت محمدی پر طعنہ زنی کرنی ہوتی ہے۔خوارج میں سے کوئی کہنے والا کہتا : اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ’’عدل سے کام لیجئے۔بیشک آپ عدل نہیں کررہے ۔‘‘ یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ظلم کو جائز کہتے ہیں ۔اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پہلے شخص کے لیے فرمایا تھا: ’’ تیری خرابی ہو جب میں عدل نہ کروں تو اور کون عدل کریگا؟اگرمیں نے عدل نہ کیا تو تو ناکام و نامراد ہوگیا ۔‘‘[1]
Flag Counter