Maktaba Wahhabi

291 - 645
صحیح احادیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ رضی اللہ عنہ آپ کو ایک ران پر بٹھاتے اور اسامہ بن زید کو دوسری ران پر بٹھاتے اور فرمایا کرتے تھے : ’’ اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں ‘ تو بھی ان دونوں سے محبت کر۔ او ران لوگوں سے بھی محبت کر جو ان دونوں سے محبت کریں ۔‘‘ [المسند ۵؍۲۰۵؛ فضائل الصحابۃ ۲؍۷۶۸؛ ح:۱۳۲] اس سے ظاہر ہوا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت کے مسئلہ پر جو جنگ ترک کی ؛ اور مسلمانوں کے درمیان صلح کروائی ؛ تویہ امر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب تھا؛یہ کوئی معصیت نہ تھی۔ بلکہ جنگ و قتال کی نسبت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں محبوب ترین چیز تھی۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے اور اسامہ سے محبت کااظہار کیا ‘ ان دونوں کے لیے دعا بھی فرمائی۔یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں حضرات جنگ و قتال اور فتنہ کو نا پسند کرتے تھے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے تو جنگ و قتال میں حصہ ہی نہیں لیا ؛ نہ ہی آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا اور نہ ہی حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا ۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ ہمیشہ اپنے والد محترم کو جنگ بند کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ یہ رافضیوں کے عقیدہ اور دعوی کے الٹ ہے۔ اس لیے کہ وہ صلح کو مصیبت اور ذلت شمار کرتے ہیں ۔ اگر اس وقت کوئی امام معصوم ہوتا توہر ایک پر اس کی اطاعت واجب ہوتی۔اور جو کوئی اس معصوم کے علاوہ کسی دوسرے کو امام بناتا تو اس کی امامت وولایت باطل ہوتی۔نہ ہی اس کے ساتھ جہاد کرنا جائز ہوتا اور نہ ہی اسکے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہوتی ۔ تو پھر اس صورت میں یہ صلح امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے بڑے مصائب میں سے ایک ہوتی۔ اور اس کی وجہ سے ان لوگوں کا دین فاسد ہوجاتا ۔ توپھر اس صلح میں کونسی ایسی فضیلت تھی جس پر رافضہ ان کی تعریف و ثنا بیان کرتے ہیں ۔بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ آپ کو کمزوری کی وجہ سے جنگ کرنے سے معذور سمجھا جاتا۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو صلح کی وجہ سے قابل تعریف سردار قراردیا ہے ‘ عاجز اور معذور نہیں کہا۔حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت لڑائی سے نہ ہی عاجز آگئے تھے اور نہ ہی کمزور پڑے تھے۔بلکہ آپ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر قتال پر قادر تھے ؛ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اس وقت تک جنگ کی حتی کہ آپ کو شہید کردیا گیا۔جوکچھ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کیا اگر ایسا کرنا افضل اور واجب ہوتا تو پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ اس واجب کو ترک نہ کرتے اور کمزوری کی وجہ سے پیچھے نہ ہٹتے۔اور اگر جوکچھ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کیا تھا؛ وہی افضل اور زیادہ مناسب تھا تو یہ دلیل ہے کہ جنگ کو ترک کرنا اور صلح کرلینا ہی افضل تھا۔اور جو کچھ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کیا وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب اور پسندیدہ تھا۔ اور اللہ تعالیٰ اہل تقو ی مؤمنین کے درجات کو آپس میں ایک دوسرے پر بلند کرتا ہے۔ اوریہ سب کے سب جنت میں ہوں گے۔ رضی اللہ عنہم ۔ پھر اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو امام بنایا تھا ؛ تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ان کو امام بنانا کیا معنی رکھتا ہے ؟ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کوامام مقرر کرنا معنی رکھتا ہے ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور
Flag Counter