Maktaba Wahhabi

294 - 645
اورنہ ہی معروف کتب حدیث میں اس روایت کا کوئی نام و نشان ملتا ہے۔اس حکایت کو نقل کرنے والے نے اس کی کوئی سند ذکر نہیں کی اورنہ ہی اسے کسی معروف کتاب کی طرف منسوب کیا ہے۔ بلکہ شیعہ مصنف نے اپنی عادت کے مطابق ایک بے سند بات کی ہے اور بہت گھٹیا قسم کا جھوٹ بولاہے۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ منقولات میں سچی اور جھوٹی روایت میں فرق اس کی اسناد کی بنا پر ہوتا ہے ۔ورنہ یہ بھی محض ایک جھوٹا دعوی ہے ؛کئی ایک لوگوں نے اس طرح کے دیگر بھی دعوے کر رکھے ہیں۔ پھر اس سے یہ بھی کہا جائے گا کہ:اس روایت کے جھوٹ ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق ہے۔ اس قسم کی باتیں جاہل لوگ کیا کرتے ہیں ، بھلاحضرت ابراہیم و حسین رضی اللہ عنہما کو جمع کرنے میں کونسا نقصان ہے جو حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو جمع کرنے میں نہیں ۔ اگر حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کی موت ابراہیم کی موت سے بڑھ کر تھی تو پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی زندگی بھی ان سے بہت زیادہ بڑھ کر ہوتی۔ حالانکہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ زندہ رہے ۔ نیز یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق باقی لوگوں کے حق سے بہت زیادہ اور بڑھ چڑھ کر ہے ۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنی جان سے بڑھ کر محبوب ہیں ۔ اور آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی جان سے بڑھ کر محبت کرتے تھے۔ تو اس صورت میں اگر حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ مر جاتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اس سے بہت زیادہ روتے جتنا وہ اپنے بیٹے حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر روتے۔ ہاں اگر یہ کہا جائے کہ بیٹے کی محبت طبعی ہوتی ہے ؛ جس کو ختم کرنا ممکن نہیں ۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہی وصف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں موجود ہے۔ جب ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو آپ فرما رہے تھے : ’’آنکھ رو رہی ہے ۔ دل غمگین ہے ۔ اور ہم زبان سے صرف وہی کہیں گے جس سے ہمارا اللہ راضی ہوجائے۔ اے ابراہیم! ہم تیری جدائی پر غمگین ہیں ۔‘‘[1] یہ تو صحیح احادیث میں ثابت ہے ۔ پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی جگہ اپنے بیٹے کی قربانی پیش کی ؛ اور ان کی جگہ اپنے بیٹے کی موت کو اختیار کیا؟ پھر کیا یہ بھی جائز ہے کہ ایک معصوم انسان کے بدلے کسی دوسرے معصوم کے خون کا بدلہ پیش کیا جائے؟ اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو اس کا الٹ کرنا زیادہ مناسب تھا۔ اس لیے کہ اگر کسی انسان کے پاس کچھ بھی نہ ہو صرف اتنا خرچہ ہو جو یا تو اپنے بیٹے پر خرچ کرے یا پھر اپنے نواسے وغیرہ پر خرچ کرے؛ تو باتفاق مسلمین اس پر اپنے بیٹے پر خرج
Flag Counter