Maktaba Wahhabi

313 - 645
نیز اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ﴿کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ [البقرۃ ۲۳۹] ’’ بسا اوقات چھوٹی اور تھوڑی سی جماعتیں بڑی اور بہت سی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غلبہ پا لیتی ہیں ، اللہ تعالیٰ صبر والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ یہاں پر اس آیت میں کثیر سے مراد کئی قسم کی مقداریں ہیں ۔ اس لیے کہ وہ جماعتیں جن کا ذکر کیا جارہا ہے معلوم ہونے کے باوجودانہیں کسی متعین عدد میں محدود کرنا ممکن نہیں ۔ایسے بھی ہوسکتا ہے کہ کبھی چھوٹی جماعت کی تعداد ایک ہزار ہو اور بڑی جماعت کی تعداد تین ہزار ہو۔ اور کبھی اس سے کم و زیادہ بھی ممکن ہے۔ پس کثیر تعداد کا اطلاق اس کی نسبت سے کم کے ساتھ مقابلہ کے طور پر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿اِذْ یُرِیْکَہُمُ اللّٰہُ فِیْ مَنَامِکَ قَلِیْلًا وَ لَوْ اَرٰیکَہُمْ کَثِیْرًا لَّفَشِلْتُمْ وَ لَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ سَلَّمَ﴾ [الأنفال۳۳] ’’جب اللہ آپ کو آپ کے خواب میں دکھا رہا تھا کہ وہ تھوڑے ہیں اور اگر وہ آپ کو دکھاتا کہ وہ بہت ہیں تو تم ضرور ہمت ہار جاتے اور ضرور اس معاملے میں آپس میں جھگڑ پڑتے ؛ لیکن اللہ نے سلامت رکھا۔‘‘ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو سو سے کچھ زیادہ دیکھایا تھا۔یہ کمی اور زیادتی باعتبارنسبت کے ہے۔ اس تمام بحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قلت اور کثرت کا انحصار اس کی اضافت کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاء کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے کہ جب کوئی انسان اقرار کرے کہ فلاں انسان کا مجھ پر بہت سارا مال ہے‘ یا بہت زیادہ مال ہے ؛ یا کہے کہ : کافی مقدار میں مال ہے ؛ تو اس کی وضاحت کے لیے اسی آدمی سے رجوع کیا جائے گا؛ اور وہی اس کی وضاحت بیان کرے گا۔ جیسا کہ امام شافعی اور امام احمد کے اصحاب میں سے ایک گروہ کا قول ہے۔ اور اس کی وضاحت بھی اس مقدار میں ہی تسلیم کی جائے گی جسے زیادہ مانا جاسکتا ہو۔ جیسا کہ امام ابو حنیفہ اور امام مالک اور اصحاب احمد میں سے بعض کا قول ہے۔ دوسری رائے والوں میں سے بعض کاکہنا ہے: اتنا مال جو چوری کی حد کی مقدار کو پہنچتا ہو‘وہ مال کثیر ہے۔ اور بعض کہتے ہیں : اتنا مال جس کے نصاب پر زکوٰۃ لازم آتی ہو۔اور بعض کہتے ہیں : دیت کی مقدار میں مال کثیر تصور ہوگا۔ اور یہ نزاع بھی اقرار میں ہے۔ اس لیے کہ یہ واقعہ کی خبر دی جارہی ہے ۔ اور ماضی کی خبر کو اقرار کرنے والا جانتا ہے۔ جب کہ مذکورہ بالا مسئلہ کا تعلق خبر سے نہیں بلکہ انشاء سے ہے ۔جیسا کہ اگرکوئی بہت سارے دراہم کی وصیت کرے تو راجح یہ ہے کہ بات کہنے والے کے عرف کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ پس جتنی مقدار کو وہ کثیر کہتا ہو؛ اس پر اس کے کلام کااطلاق ہوگا۔ جب خلیفہ نذر مانتے ہوئے بہت سارا مال کہے تو اس کی نذر کو سو یا دو سو درہم پر محمول نہیں کیا جائے گا؛بلکہ یہاں پر اس کی علیحدہ سے مستقل حیثیت ہے۔یہاں پر اگر اس کلام کودیت کی مقدار یعنی[کم ازکم] بارہ ہزاردرہم پر محمول کیا جائے
Flag Counter