Maktaba Wahhabi

325 - 645
صاحب سلطنت و قدرت ہو نہ کہ وہ شخص جو قضا کا استحقاق رکھتا ہو ۔ لشکر اس شخص کے زیر فرمان لڑے گا جو ان کا امیر حرب ہو نہ کہ مستحق امارت کے زیر اثر ؛جو کہ امیر کارواں ہی نہ ہو۔ خلاصہ کلام! ہر فعل قدرت کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔ لہٰذا قدرت و سلطنت سے محروم شخص ولایت و امارت پر فائز نہیں ہو سکتا۔ استحقاق ایک جدا گانہ شے ہے؛ اگرچہ وہ اس کا استحقاق رکھتا ہو کہ اسے قدرت و سلطنت سے بہرہ ور کیا جائے ؛مگر اس منصب پر بہرہ ور ہونے والے کے ہم پلہ ہرگز نہیں ۔ پس کسی کا قدرت و سلطنت کا مستحق ہونے سے اس کا ان امور سے فی الواقع بہرہ ور ہونا لازم نہیں آجاتا۔ خلیفہ و امام دراصل وہ ہوتا ہے، جو شوکت و قدرت کی صفات سے موصوف ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ان ائمہ میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا ایک امام بھی ایسا نہیں جو ان صفات سے بہرہ ور ہو۔ چوتھا جواب:....ہم شیعہ سے پوچھتے ہیں کہ استحقاق سے تمہاری مراد کیا ہے؟ کیا تمہارا مطلب یہ ہے کہ باقی تمام قریش کو چھوڑ کر ائمہ شیعہ میں سے کسی ایک کا خلیفہ ہونا ضروری تھا؟ یا یہ مطلب کہ ائمہ میں سے ہر ایک ان لوگوں میں سے ہے جو خلافت کی صلاحیت رکھتے ہیں ؟ پہلی بات اس لیے غلط ہے کہ احادیث نبویہ سے صراحۃً امامت قریش کا ثبوت ملتا ہے ۔ اور اگر دوسری بات تسلیم کی جائے تو اس وصف میں قریش کے دوسرے لوگ مساوی طور پر شریک ہیں ۔ پانچواں جواب:....ان سے کہا جائے گا کہ : امام وہ ہے جس کی اقتدا کی جائے؛ اس کے دو طریقے ہیں : ۱ول:....علم و دین میں اس کی طرف رجوع کیا جائے اور اطاعت کنندہ اس بنا پر اس کی اطاعت اختیار کرے کہ وہ اﷲتعالیٰ کے اوامر و احکام اس کے بندوں تک پہنچاتا ہے تاہم اس میں ایسی کوئی قوت نہیں ہوتی کہ کسی کو اپنی اطاعت پر مجبور کر سکے۔ دوم:....دوسری صورت یہ ہے کہ وہ صاحب قوت و شوکت اور مالک سیف و سنان ہو۔ اور لوگوں کو طوعاً و کرہاً اس کی اطاعت کرنی پڑے، آیت کریمہ﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ﴾ میں ’’ اولی الامر ‘‘ سے اصحاب قدرت مثلاً امراء حرب اور علماء دونوں مراد لیے گئے ہیں ۔ اور یہ دونوں معانی حق ہیں ۔ یہ اوصاف یوں تو چاروں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم میں مکمل طور پر پائے جاتے ہیں ۔ وہ علم و عدل اورسیاست و سیف و سنان دونوں کے دھنی تھے۔ تاہم ان میں بھی تفاوت درجات موجود ہے، مثلاً حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ، حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنہما کی نسبت اکمل و افضل تھے۔ ان کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے سوا دوسرا کوئی خلیفہ ان اوصاف کا جامع نہ تھا۔ بعض اشخاص خلفاء و سلاطین کی نسبت علم و فضل و دین داری میں آگے تھے، بعض حکومت و سلطنت میں کامل تھے، مگر علم و فضل اور تدین میں ان کو وہ مقام حاصل نہ تھا۔ اگر شیعہ کے ائمہ کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ بااقتدار بھی تھے، تو یہ باطل ہے۔ اور وہ خود بھی اس کے مدعی نہیں تھے۔ اور اگر اقتدار سے محرومی کے باوصف علم و دین میں ان کی امامت کو تسلیم کیا جائے؛اور یہ لوگ کسی دوسرے سے اپنی بات منوانے کی قدرت نہ رکھتے تھے ؛ تو دوسرے علماء بھی اس وصف میں ان کے شریک تھے۔[یہ پھر ان کی کوئی خصوصیت نہ ہوئی]
Flag Counter