Maktaba Wahhabi

33 - 645
اور فرمایا: ﴿وَ جَعَلْنَا مِنْہُمْ اَئِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا وَ کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ﴾ (السجدہ: ۲۳) ’’اور ہم نے ان میں سے کئی پیشوا بنائے، جو ہمارے حکم سے ہدایت دیتے تھے، جب انھوں نے صبر کیا اور وہ ہماری آیات پر یقین کیا کرتے تھے۔‘‘ ﴿وَ جَعَلْنٰہُمْ اَئِمَّۃً یَّدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ﴾ (القصص: ۳۱) ’’اور ہم نے انھیں ایسے پیشوا بنایا جو آگ کی طرف بلاتے تھے۔‘‘ کتاب و سنت میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں جو بیان کرتی ہیں کہ مومن بندے ہدایت، ایمان، عمل صالح اور نیکی کی طرف لے جانے والی عقل کے ساتھ خاص ہیں ، اور عقل بھی یہی کہتی ہے۔پس بیشک جب یہ فرض کیا کہ فاعل سے فعل کے صدور کے جملہ اسباب [سے بہرہ ور ہے]جیسا کہ وہ تارک سے بھی ہیں کہ اس میں فاعل کے فعل کے ساتھ اختصاص دو متماثلین میں سے ایک کو دوسرے پر بلا مرجح ترجیح دینے کے ساتھ ہے تو یہ بالضرور فاسد ہے، اور یہ وہ اصل ہے جس پر انہوں نے صانع کے اثبات کی بنا رکھی ہے۔ اگر ان کا یہ قول فاسد ہو تو ان کے پاس صانع کے اثبات کا کوئی طریق نہیں رہ جاتا۔ ان کے قول کی غایت سے ہے کہ قادرِ مختار دو مقدور میں سے ایک کو دوسرے پر بلا مرجح کے ترجیح دیتا ہے۔ جیسے بھوکا اور خوف زدہ، اور یہ قول فاسد ہے۔ کیونکہ برابری کی موجب اسباب کے ہوتے ہوئے ترجیح ممتنع ہے۔ پھر اگر تو بلا مرجح کے قول میں ترجیح وجود فعل سے ایک زائد معنی ہے تو یہ بھی سببِ مرجح ہے، اور اگر میں کوئی زائد معنی نہیں ۔ تو فعل کے وجود سے پہلے فعل کا حال، فعل کے وقت کے حال جیسا ہوگا۔ پھر فعل دو میں سے ایک حالت میں ۔ دوسری حالت کو بلا مرجح چھوڑنے کے ساتھ حاصل ہوگا۔ بلاشبہ یہ عقل کے ساتھ مکابرہ ہے۔ پھر جب قدریہ کے قول کی اصل یہ ہے کہ طاعات کا فاعل اور ان کا تارک دونوں اعانت و اِقدار میں برابر ہیں ، تو ان کی اس اصل پر یہ بات ممتنع ہوگئی کہ فعل کے ساتھ قدرتِ مخصصہ ہو۔ کیونکہ وہ قدرت جو فعل کو خاص کرتی ہے وہ تارکِ فعل کے ساتھ نہ ہوگی۔ وہ تو فاعل کے ساتھ ہوگی، اور قدرت صرف اللہ ہی کی طرف سے ہوگی، اور جو اللہ کی طرف سے ہو وہ فعل کے وجود کے ساتھ مختص نہ ہوگی۔ پھر جب انہوں نے دیکھا کہ قدرت کا فعل سے پہلے ہونا لازم ہے تو یہ قول کیا: قدرت فعل کے ساتھ نہ ہوگی کیونکہ قدرت وہ ہوتی ہے جس کے ساتھ فعل اور ترک دونوں ہوں ، اور فعل کے وجود کے وقت ترکِ ممتنع ہے۔ اسی لیے ان لوگوں نے کہا: قدرت فعل سے قبل ہوگی۔ لیکن یہ قول قطعاً باطل ہے۔ کیونکہ اثر کا وجود اس کی بعض شروطِ وجودیہ کے ساتھ ممتنع ہے۔ بلکہ لازم ہے کہ امور وجودیہ میں سے جن جن پر فعل موقوف ہے وہ فعل کے وقت موجود ہوں ۔ پس ان کے قول کی نقیض حق ہے، اور وہ نقیض یہ ہے کہ فعل کے ساتھ قدرت ہونا لازم ہے۔ لیکن یہاں اہلِ اثبات کی بھی دو جماعتیں ہو گئیں ۔ ایک جماعت کا یہ قول تھا کہ قدرت صرف فعل کے ساتھ ہوگی۔
Flag Counter