Maktaba Wahhabi

336 - 645
اپنے اقوال کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کرتے ہیں ۔ ورنہ ان کے اپنے اقوال کسی درجہ میں بھی حجت نہیں ۔ حالانکہ یہ ائمہ احادیث نبویہ سے بخوبی آگاہ تھے اور ان کی معرفت و اتباع میں ان کا اجتہاد حق و صواب پر مبنی ہے، ورنہ ائمہ کی اتباع کی کوئی ضرورت نہ تھی، جس طرح مذکورہ ائمہ احادیث کی روایت کرتے ہیں ، اسی طرح دوسرے لوگ بھی اس ضمن میں ان سے پیچھے نہیں اور اگر ائمہ مسائل کا جواب دیتے ہیں تو دوسروں کو بھی یہ شرف حاصل ہے، بایں ہمہ اہل سنت کے نزدیک ان میں سے کوئی بھی معصوم نہیں ، اور کسی کا قول بھی واجب الاتباع نہیں ۔ بخلاف ازیں ائمہ کے مابین جب بھی کسی بات میں تنازع بپا ہوگا تو اہل سنت اسے اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی جانب لوٹائیں گے۔ اگر بچشم خود اس کا مشاہدہ کرنا چاہیں تو اپنے زمانہ کے محدثین و فقہاء کو دیکھ لیں ، یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ شیعہ علماء کی اکثریت حافظ قرآن نہیں ہوتی، اور حدیث نبوی سے بھی انہیں بے حد معمولی لگاؤ ہوتا ہے، کتاب و سنت کے مفہوم و معنی سے وہ بالکل بے گانہ ہوتے ہیں ۔باقی رہا شیعہ شاعر کا یہ قول کہ ’’ روٰی جَدُّنَا عَنْ جِبْرِیْلَ عَنِ الْبَارِیْ‘‘ ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ ائمہ اربعہ تمہارے نانا کی روایات کو شیعہ سے بہتر جانتے ہیں ، اور شیعہ بھی احادیث کے بارے میں ان کی طرف رجوع کرتے ہیں جب متقدمین و متاخرین بنی ہاشم، احادیث رسول بنی ہاشم کے علاوہ دوسرے لوگوں سے حاصل کرتے ہیں تو یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ بنی ہاشم دوسروں سے زیادہ علم نہیں رکھتے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ کس کی اقتدا کریں اور کس سے استفادہ کریں ؟ آیا ان لوگوں سے اخذ و استفادہ کریں جو علم سے آگاہ ہیں یا ان لوگوں سے جو اس سے قطعی نابلد ہیں ؟ اس میں شبہ نہیں کہ علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے درہم و دینار کاورثہ نہیں چھوڑا بلکہ اپنے پیچھے علم کاورثہ باقی رکھا ہے، جس نے یہ ورثہ حاصل کر لیا، اس نے بہت بڑا حصہ پایا۔ اگر شیعہ مصنف کہے کہ ’’ میری مراد اس سے بارہ امام ہیں ۔‘‘ تو ہم کہیں گے کہ علی بن حسین ابو جعفر رحمہ اللہ اور دیگر اہل بیت اپنے جدا مجد (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) سے جو روایات نقل کرتے ہیں وہ اسی طرح قابل قبول ہیں جس طرح دیگر راویان حدیث کی مرویات، اور اگر لوگ امام مالک شافعی اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے نزدیک موسیٰ بن جعفر، علی بن موسیٰ اور محمد بن علی رحمہم اللہ کی نسبت زیادہ روایات نہ پاتے تو اہل بیت کے علماء کو چھوڑ کر کبھی ان ائمہ دین کی بارگاہ میں حاضر نہ ہوتے۔ یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ آخر لوگوں کو کیا پڑی تھی کہ وہ موسیٰ بن جعفر رحمہ اللہ سے ہٹ کر امام مالک بن انس رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوتے، حالانکہ یہ دونوں اکابر بہ یک وقت ایک ہی شہر میں بودو باش رکھتے تھے، بشرطیکہ موسیٰ بن جعفر رحمہ اللہ کے ہاں سے بھی انہیں علمی تشنگی کو دور کرنے کا وہی سامان میسر آتا جو امام مالک رحمہ اللہ کے ہاں دستیاب تھا، خصوصاً جب کہ اس زمانہ کے لوگ حدیث رسول کے شیدائی تھے، اس پر مزید یہ کہ خود بنی ہاشم اپنے چچا زاد موسیٰ بن جعفر رحمہ اللہ کی بجائے امام مالک رحمہ اللہ سے کسب فیض کیا کرتے تھے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئے، آپ نے بہت سے مسائل میں اپنے استاد محترم امام مالک رحمہ اللہ سے اختلاف کر کے ان کی تردید کی ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امام مالک رحمہ اللہ کے اصحاب و تلامذہ اور امام
Flag Counter