Maktaba Wahhabi

35 - 645
اس حدیث میں آپ نے ایسی استطاعت کی نفی فرمائی جس کے ساتھ فعل نہ پایا جاتا ہو۔ اس سے یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ شریعت میں جو استطاعت مشروط ہے، وہ اس استطاعت سے خاص تر ہے جو عقل سے معلوم کی جاتی ہے۔ اس لیے کہ شار ع کا مقصد دین میں آسانی پیدا کرنا ہے، مثلاً مریض جو کھڑا ہونے پر قادر ہو مگر یہ خطرہ دامن گیر ہو کر کھڑا ہونے سے وہ بتا خیر صحت یاب ہوگا، ایسے شخص کو حصول ضرر کی بنا پر شرعاً غیر مستطیع تصور کیا جائے گا، اگرچہ لوگوں میں اسے مستطیع کے نام سے موسوم کیا جائے۔ خلاصہ کلام! یہ کہ شارع کی نگاہ شرعی استطاعت میں صرف امکان ہی پر نہیں ہوتی بلکہ وہ اس کے لوازم کو بھی ملحوظ خاطر رکھتا ہے۔ جب شارع کی نظر میں راجح مفسدہ کے ساتھ فعل کا امکان موجود ہو ؛ تویہ شرعی استطاعت نہ ہوگی۔ جیسے وہ شخص جو ایسے ضرر کے ساتھ حج کی قدرت رکھتا ہو جو اس کے دین یا مال کو لاحق ہوتی ہو۔ یا کوئی زیادہ مرض کے ہوتے ہوئے بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھے۔ یا کوئی اپنی معیشت سے منقطع ہو کر دو ماہ کے لگا تار روزے رکھے، وغیرہ۔ تو جب شارع نے قدرت میں مفسدۂ راجحہ کے نہ ہونے کو شرط رکھا ہے؛ تو وہ کسی عاجز کو کیوں کر مکلف و مامور کر سکتا ہے۔ تاہم یہ استطاعت و جود فعل تک باقی رہنے کے باوصف فعل کے پائے جانے کے لیے کافی نہیں ، اگر ایسی استطاعت کافی ہوتی تو تارک و فاعل مساوی ہو کر رہ جاتے، اور دونوں میں فرق و امتیاز مشکل ہوجاتا۔ بخلاف ازیں مذکورہ استطاعت کے ساتھ ایک دوسری اعانت کا وجود ناگزیر ہے۔ جو اس کے مقارن ہو، مثلاً فاعل کا با ارادہ ہونا اس لیے کہ قدرت و ارادہ کے بغیر فعل کا تکمیل پذیر ہونا ممکن نہیں ۔ وہ ارادہ جس میں عزم و استقلال پایا جاتا ہو استطاعت مقارنہ للفعل میں داخل ہے، البتہ جو استطاعت احکام کا مکلف بنانے کے لیے شرط ہے اس میں ارادہ کا پایا جانا ضروری نہیں ۔اور فعل سے مقارن استطاعت میں ارادۂ جازمہ داخل ہے۔ بخلاف تکلیف میں مشروط استطاعت کے؛ اس میں ارادۂ شرط نہیں ۔مذکورہ بالا بیان سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ ارادہ نہ کرنے والے کو کسی فعل کا مامور و مکلف تو بناتے ہیں البتہ جو شخص کسی فعل کو انجام دینے سے عاجز ہو اس کو مامور نہیں کرتے۔ جیسے آقا اپنے غلام کو ایسے کام کا حکم تو دیتا ہے، جس کو انجام دینے کا وہ ارادہ نہیں رکھتا البتہ اسے ایسے کام تفویض نہیں کرتا جن سے وہ عاجز ہو۔ جب عزم راسخ اور قوت تامہ دونوں یک جا ہوتے ہیں ، تو فعل کا وجود پذیر ہونا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ اور فعل کو مستلزم یہ ارادۂ و قوت ضروری نہیں کہ فعل کو مقارن بھی ہو، اور اگر وہ فعل کے مقارن نہیں تو اس کا تقدم کافی نہیں ۔ کیونکہ وہ فعل کی علتِ نامہ ہے اور علتِ نامہ معلول کے مقارن ہوا کرتی ہے نہ کہ اس سے مقدم ہوتی ہے۔ دوسرے قدرت فعل کے وجود میں شرط ہے اور فاعل کا قادر ہونا بھی شرط ہے، اور اس شے کے وجود میں شرط جو قادر کے قادر ہونے کا ذریعہ ہو تو وہ شے اس کے عدم کے ساتھ نہیں ۔ بلکہ اس کے وجود کے ساتھ ہوگی۔ وگرنہ فاعل قادر نہ ہونے کے وقت بھی قادر ہوگا، یا غیر قادر بھی قادر ہوگا۔ اہلِ اثبات کے اس قول کا یہی مطلب ہے جسے قاضی ابو بکر اور قاضی ابو یعلی وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ: ’’ہمارے اور
Flag Counter